Anwar-ul-Bayan - Az-Zukhruf : 33
وَ لَوْ لَاۤ اَنْ یَّكُوْنَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً لَّجَعَلْنَا لِمَنْ یَّكْفُرُ بِالرَّحْمٰنِ لِبُیُوْتِهِمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَّةٍ وَّ مَعَارِجَ عَلَیْهَا یَظْهَرُوْنَۙ
وَلَوْلَآ : اور اگر نہ ہو یہ بات اَنْ يَّكُوْنَ النَّاسُ : کہ ہوجائیں گے لوگ اُمَّةً وَّاحِدَةً : ایک ہی امت لَّجَعَلْنَا : البتہ ہم کردیں لِمَنْ : واسطے اس کے جو يَّكْفُرُ : کفر کرتا ہے بِالرَّحْمٰنِ : رحمن کے ساتھ لِبُيُوْتِهِمْ : ان کے گھروں کے لیے سُقُفًا : چھتیں مِّنْ فِضَّةٍ : چاندی سے وَّمَعَارِجَ : اور سیڑھیاں عَلَيْهَا : ان پر يَظْهَرُوْنَ : وہ چڑھتے ہوں
اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ سب لوگ ایک ہی طریقہ پر ہوجائیں گے تو ہم ان لوگوں کے لیے جو رحمان کے ساتھ کفر کرتے ہیں ان کے گھروں کی چھتوں کو چاندی کی کردیتے اور زینے بھی جن پر وہ چڑھتے ہیں
﴿وَ لَوْ لَاۤ اَنْ يَّكُوْنَ النَّاسُ ﴾ (الآیۃ الثلٰٓث) ان تینوں آیتوں میں دنیا کی حقارت بیان فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ لوگ ایک ہی طریقہ اختیار کرلیں گے اور ایک ہی جماعت بن جائیں گے یعنی دنیا کی رغبت رکھنے کی وجہ سے عام طور سے لوگ کفر ہی اختیار کرلیں گے تو ہم کافروں کو اتنا سونا چاندی دیتے کہ ان کے گھروں کی چھتیں اور ان کے زینے اور سیڑھیاں جن کے ذریعے وہ اوپر چڑھتے ہیں اور ان کے گھروں کے دروازے اور ان کے تخت جن پر تکیہ لگا کر بیٹھے ہیں ان سب کو سونے چاندی کا بنا دیتے انسان کا مزاج چونکہ دنیا کی چیزوں کو ترجیح دیتا ہے اس لیے یہ دیکھ کر کہ کافر ہونے میں دولت ملتی ہے ایمان قبول نہ کرتے اور کفر کو اختیار کیے رہتے اس لیے ایسا نہیں کیا گیا کہ مال و دولت صرف کافروں ہی کو دیا جائے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایسا نظام رکھا ہے کہ اہل ایمان بھی مالدار رکھے ہیں اور کافروں میں بھی اور دونوں جماعتوں میں تنگدست بھی ہیں اور فقیر بھی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا بہت ہی زیادہ حقیر ہے حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ بھیڑ کے ایک بچہ کے پاس سے گزرے جو مرا ہوا تھا اور اس کے کان بھی کٹے ہوئے تھے اس کو دیکھ کر آپ ﷺ نے حاضرین سے فرمایا کہ تم میں سے کون شخص یہ پسند کرتا ہے کہ ایک درہم کے عوض اس کو لے لے ؟ حاضرین نے عرض کیا کہ اسے تو ہم مفت میں لینا بھی پسند نہیں کرتے ! آپ نے فرمایا اللہ کی قسم اللہ کے نزدیک پوری دنیا اس سے زیادہ ذلیل ہے جتنا یہ (بھیڑ کا مرا ہوا بچہ) تمہارے نزدیک ذلیل ہے۔ (رواہ مسلم) حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر دنیا اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا۔ (رواہ احمد والترمذی وابن ماجہ کما فی المشکوٰۃ ص 441) اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا اتنی زیادہ ذلیل ہے اگر وہ اسے اپنے دشمنوں کو بھی دیدے تو اس میں کیا تعجب کی بات ہے پھر کافر بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں انہیں آخرت میں کوئی نعمت نہیں ملتی لہٰذا انہیں دنیا میں بہت کچھ دے دیا جاتا ہے مومن بندوں کا کافروں کی دنیا دیکھ کر رال ٹپکانا مومنانہ سمجھداری کے خلاف ہے۔ حضرت شداد ؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اے لوگو ! یہ بات بلاشک و شبہ ہے کہ دنیا ایک سامان ہے جو سب کے سامنے حاضر ہے اس میں سے نیک و بد سب کھاتے ہیں اور بلاشبہ آخرت کا وعدہ سچا ہے اس میں وہ بادشاہ فیصلہ کرے گا جو عادل ہے قادر ہے وہ حق ثابت فرمائے گا اور باطل کو باطل کردے گا تم آخرت کے بیٹے بنو اور دنیا کے بیٹے مت بنو کیونکہ ہر ماں کا بچہ اس کے پیچھے پیچھے جاتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح 445) قولہ تعالیٰ ﴿وَ زُخْرُفًا﴾ قال القرطبی الزخرف ھنا الذھب والنتصب زُخْرُفًا علی معنی وجعلنا لھم مع ذلک زخرفًا : وقیل بنزع الخافض والمعنی فجعلنا لھم سُقُفًا وابوابا وسررًا من فضة ومن ذھب فلما حذف ” من “ قال ﴿وَ زُخْرُفًا﴾ فنصب (اللہ تعالیٰ کا قول زخرفًا کے بارے میں علامہ قرطبی ؓ فرماتے ہیں یہاں زخرف سے مراد سونا ہے اور زخرفًا اس لیے منصوب ہے کہ معنی یہ بنے گا اور ہم نے ان کے لیے اس کے علاوہ سونا بنایا ہے۔ بعض نے کہا حرف جر کے محذوف ہونے کی وجہ سے منصوب ہے معنی اس طرح ہے کہ ہم نے ان کے لیے چھتیں، دروازے اور تخت چاندی و سونے کے بنائے بھی (من ذھب) جب من حذف کیا تو زخرفًا کو نصب دے دی گئی۔
Top