Jawahir-ul-Quran - Az-Zukhruf : 33
وَ لَوْ لَاۤ اَنْ یَّكُوْنَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً لَّجَعَلْنَا لِمَنْ یَّكْفُرُ بِالرَّحْمٰنِ لِبُیُوْتِهِمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَّةٍ وَّ مَعَارِجَ عَلَیْهَا یَظْهَرُوْنَۙ
وَلَوْلَآ : اور اگر نہ ہو یہ بات اَنْ يَّكُوْنَ النَّاسُ : کہ ہوجائیں گے لوگ اُمَّةً وَّاحِدَةً : ایک ہی امت لَّجَعَلْنَا : البتہ ہم کردیں لِمَنْ : واسطے اس کے جو يَّكْفُرُ : کفر کرتا ہے بِالرَّحْمٰنِ : رحمن کے ساتھ لِبُيُوْتِهِمْ : ان کے گھروں کے لیے سُقُفًا : چھتیں مِّنْ فِضَّةٍ : چاندی سے وَّمَعَارِجَ : اور سیڑھیاں عَلَيْهَا : ان پر يَظْهَرُوْنَ : وہ چڑھتے ہوں
اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ سب لوگ22 ہوجائیں ایک دین پر تو ہم دیتے ان لوگوں کو جو منکر ہیں رحمان سے ان کے گھروں کے واسطے چھت چاندی کی اور سیٹرھیاں جن پر چڑھیں
22:۔ ” ولولا ان یکون “ یہ ” قالوا لولا نزل ھذا القران الخ “ (شکوی) سے متعلق ہے۔ ” امۃ واحدۃ “ سے امت کافرہ مراد ہے۔ لولا کراھۃ ان یجتمعوا علی الکفر و یطبقوا علیہ (مدارک ج 4 ص 90) ۔ ” سقفا “ چھتیں، یہ ” سقف “ کی جمع ہے۔ ” معاج “ سیڑھیاں۔ ” سررا “ سریر کی جمع ہے۔ بمعنی چارپائی، پلنگ، زخرف، سونا۔ الزخرف ھنا الذھب عن ابن عباس وغیرہ (قرطبی ج 16 ص 87) اور ” زخرفا “ فعل محذوف کا مفعول ہے۔ ای ولا عطیناھم زخرفا۔ قالہ الشیخ (رح) تالی۔ ان آیتوں میں دولت دنیا کی قلت و حقارت کا بیان ہے جس پر مغرور ہو کر مشرکین کہتے ہیں کہ وحی ان پر کیوں نازل نہ ہوئی، حالانکہ دنیا کی دولت اور زر و جواہر آخرت کے مقابلہ میں بالکل بےقدر اور ہیچ ہیں۔ سونا چاندی اور دنیوی زینت و آرائش ہمارے نزدیک اس قدر حقیر اور بےقدر ہے کہ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ لوگ کافروں کو عیش و تنعم میں دیکھ کر سب کفر ہی پر جمع ہوجائیں گے، تو ہم کافروں پر سونا چاندی بارش کی طرح برسا دیتے، ان کے گھروں کی چھتیں، اور چھتوں پر چرھنے کی سیڑھیاں، ان کے گھروں کے دروازے اور ان کے پلنگ غرضیکہ ہر چیز چاند کی ہوتی اور انہیں ہم سونا بھی اس قدر عطا کردیتے کہ وہ چاہتے تو یہ تمام چیزیں سونے کی بنوا لیتے۔ حاصل یہ ہے کہ اگر سب لوگوں کے کفر پر جمع ہوجانے کا احتمال نہ ہوتا تو یہ حقیر اور ناچیز دولت دنیا بدترین مخلوق (کفار و مشرکین) پر ہر لحاظ سے مکمل طور پر وسیع کردیجاتی، لیکن اسی وجہ سے کفار پر کامل توسیع نہیں کی گئی۔ استیناف مبین لحقارۃ متاع الدنیا ودناءۃ قدرہ عنداللہ عزوجل، والمعنی ان حقارۃ شانہ بحیث لولا کراھۃ ان یجتمع الناس علی الکفر ویطبقوا علیہ لاعطیناہ علی اتم وجہ من ھو شر الخلائق وادناھم منزلۃ فکراھۃ الاجتامع علی الکفرھی المانعۃ من تمتیع کل کافر والبسط علیہ (روح ج 25 ص 79) ۔
Top