Anwar-ul-Bayan - Al-A'raaf : 120
وَ اُلْقِیَ السَّحَرَةُ سٰجِدِیْنَۚۖ
وَاُلْقِيَ : اور گرگئے السَّحَرَةُ : جادوگر سٰجِدِيْنَ : سجدہ کرنے والے
اور جادو گر سجدہ میں ڈال دیئے گئے،
اب آگے یہ ہوا کہ جادو گروں نے یہ سمجھ لیا کہ ہم نے جس سے مقابلہ کیا یہ جادو گر نہیں ہے، یہ واقعی اللہ کا رسول ہے اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد ہے۔ جب حق واضح ہوگیا تو ان سے نہ رہا گیا اور فوراً سجدہ میں گرگئے اور یہ اعلان کردیا کہ ہم رب العالمین پر ایمان لے آئے جو موسیٰ اور ہارون کا رب ہے۔ چونکہ ایمانیات کا تفصیلی علم نہ تھا اس لیے انہوں نے اجمالی ایمان کا اعلان کردیا۔ قرآن مجید میں لفظ سجدوا یا خروا سجدوا کے بجائے (وَ اُلْقِیَ السَّحَرَۃُ ) فرمایا جس میں یہ بتادیا کہ ان کے دل میں حق نے اس قدر گھر کرلیا کہ اللہ تعالیٰ کے لیے سجدہ کرنے پر مجبور ہوگئے۔ وہ تو حضرت موسیٰ کا مقابلہ کر کے فرعون سے انعام لینے کے متمنی تھے اور ہوا یہ کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی غلامی کے گن گانے لگے۔ (قَالَ فِرْعَوْنُ اٰمَنْتُمْ بِہٖ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَکُمْ ) (فرعون نے کہا تم میری اجازت سے پہلے ایمان لے آئے) بادشاہوں کا یہ طریقہ ہے کہ وہ عوام کے قلوب پر بھی حکومت کرنا چاہتے ہیں اور پختہ وفا داری اسی کو سمجھتے ہیں کہ عوام اسی دین پر رہیں جو شاہان مملکت ان کے لیے تجویز کریں۔ اسی بنیاد پر فرعون نے یہ کہا کہ میری اجازت کے بغیر تم کیسے مسلمان ہوگئے۔ جب فرعون نے دیکھا کہ عوام کو اپنی خدائی اور حکومت کا وفا دار رکھنے اور موسیٰ سے دور رکھنے کے لیے جو جادو گروں سے مقابلہ کا مظاہرہ کرایا تھا اس کا نتیجہ بر عکس نکلا۔ اور جادو گر ہی موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے تو اب تو لینے کے دینے پڑگئے اور عوام کو اپنی طرف کرنے کے لیے اس نے جادو گروں کو خطاب کیا کہ تم میری اجازت سے پہلے اس شخص پر ایمان لے آئے (اِنَّ ھٰذَا لَمَکْرٌ مَّکَرْتُمُوْہُ فِی الْمَدِیْنَۃِ ) (بلاشبہ یہ ایک مکر ہے جو تم سب نے مل کر اس شہر میں کیا ہے) اور میری سمجھ میں آگیا کہ یہی شخص ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا۔ استاد اور شاگردوں کی ملی بھگت ہے (لِتُخْرِجُوْا مِنْھَآ اَھْلَھَا) (تاکہ تم اس شہر سے اس کے رہنے والوں کو نکال دو ) (فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ) (سو تم سب عنقریب جان لو گے) پھر ان کی سزا کا اعلان کرتے ہوئے فرعون نے کہا (لَاُقَطِّعَنَّ اَیْدِیَکُمْ وَ اَرْجُلَکُمْ مِّنْ خِلَافٍ ثُمَّ لَاُصَلِّبَنَّکُمْ اَجْمَعِیْنَ ) (میں ضرور ضرور تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹ ڈالوں گا پھر تم سب کو سولی پر لٹکا دوں گا) ظالموں کا یہی طریقہ رہا ہے کہ جب دلیل سے عاجز ہوجاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ماروں گا اور قتل کر ڈالوں گا۔ (قَالُوْٓا اِنَّآ اِلٰی رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَ ) (جادو گروں نے جواب دیا کہ بلاشبہ ہمیں اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے) مطلب یہ تھا کہ ہمیں تیری دھمکی کی کوئی پرواہ نہیں۔ قتل کر یا کچھ کر اب تو ہم اپنے رب کے ہوگئے اگر تو قتل کر دے گا تو ہمارا کچھ نقصان نہ ہوگا۔ ہمارا رب ہمیں ایمان لانے پر جو انعامات عطا فرمائے گا ان کے مقابلہ میں یہ دنیا کی ذرا سی زندگی اور تیری رضا مندی کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ جب دلوں میں ایمان جگہ کرلیتا ہے تو دنیا کی ہر مصیبت، ہیچ ہوجاتی ہے اور ظالموں سے مقابلہ کرنا اور دلیری کے ساتھ جواب دینا آسان ہوجاتا ہے۔ سورة طہٰ میں جادو گروں کا ایک اور جواب بھی ذکر فرمایا ہے۔ (قَالُوْا لَنْ نُّؤْثِرَکَ عَلٰی مَا جَآءَ نَا مِنَ الْبَیّْنٰتِ وَ الَّذِیْ فَطَرَنَا فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ اِنَّمَا تَفْضِیْ ھٰذِہِ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا اِنَّآاٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِیَغْفِرَلَنَا خَطٰیٰنَا وَ مَآ اَکْرَھْتَنَا عَلَیْہِ مِنَ السِّحْرِ وَ اللّٰہُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی) (وہ کہنے لگے کہ ہم ان دلائل کے مقابلہ میں جو ہمارے پاس پہنچ گئے اور اس ذات کے مقابلہ میں جس نے ہمیں پیدا فرمایا تجھے ہرگز ترجیح نہیں دیں گے سو تو فیصلہ کر دے جو بھی تجھے فیصلہ کرنا ہے۔ تو اسی دنیا والی زندگی ہی میں فیصلہ کرے گا، بلاشبہ ہم اپنے رب پر ایمان لائے تاکہ وہ ہماری خطائیں معاف فرما دے اور جو کچھ تو نے جادو کروانے کے بارے میں ہم پر زبردستی کی وہ بھی ہمیں معاف فرما دے اور اللہ بہتر ہے اور باقی رہنے والا ہے) ۔ جادو گروں نے فرعون سے مزید کہا (وَ مَا تَنْقِمُ مِنَّآ اِلَّآ اَنْ اٰمَنَّا بِاٰیٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَآءَ تْنَا) کہ یہ جو تو ہم سے ناراض ہو رہا ہے اور ہم سے انتقام لینے کا اعلان کر رہا ہے اس کا سبب کچھ نہیں ہے نہ ہم نے چوری کی نہ ڈاکہ ڈالا نہ کسی کو قتل کیا بس یہی بات تو ہے کہ جب ہمارے پاس ہمارے رب کی دلیلیں آگئیں تو ہم ایمان لے آئے۔ یہ بات نہ کوئی عیب کی ہے نہ جرم کی ہے۔ نہ اس پر ہم سزا کے مستحق ہوتے ہیں۔ اس کے بعد فرعون کی طرف سے اعراض کر کے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوئے اور دعا میں عرض کیا (رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ ) (کہ اے ہمارے رب ہم پر صبر ڈال دے) اگر یہ واقعی اپنے قول کے مطابق عمل کرنے لگے تو ہمیں صبر عطا فرما دیجیے اور اتنا زیادہ صبر دیجیے جیسا کہ کوئی چیز انڈیل دی جاتی ہے اور ہمیں اس حال میں وفات دیجیے کہ ہم مسلمان ہوں۔ خدا نخواستہ ایسا نہ ہو کہ فرعون کی طرف سے قتل کے فیصلہ پر عمل ہونے لگے تو ہم اپنے ایمان والے فیصلہ میں ڈھیلے پڑجائیں (والعیاذ باللہ من ذالک) ۔ صاحب روح المعانی نے حضرت ابن عباس وغیرہ ؓ سے نقل کیا ہے کہ فرعون نے جو قتل وغیرہ کی دھمکی دی تھی یہ اس نے کردیا اور بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اس پر قادر نہیں ہوسکا۔ تفسیر درمنثور (ص 107 ج 3) میں حضرت قتادہ سے نقل کیا ہے کہ ذکرلنا انھم اول النھار سحرۃً و آخرہ شھداء (کہ جادو گر دن کے اول حصہ میں جادو گر تھے اور آخر حصہ میں شہید تھے) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون نے ان کو شہید کردیا تھا۔
Top