Mutaliya-e-Quran - Al-A'raaf : 120
وَ اُلْقِیَ السَّحَرَةُ سٰجِدِیْنَۚۖ
وَاُلْقِيَ : اور گرگئے السَّحَرَةُ : جادوگر سٰجِدِيْنَ : سجدہ کرنے والے
اور جادوگروں کا حال یہ ہوا کہ گویا کسی چیز نے اندر سے انہیں سجدے میں گرا دیا
[ وَاُلْقِيَ : اور ڈالے گئے ] [ السَّحَرَةُ : جادوگر لوگ ] [ سٰجِدِيْنَ : سجدہ کرنے والوں کی حالت میں ] نوٹ ۔ 1: 120، میں القی ، ماضی مجہول کا صیغہ آیا ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جادوگروں کو سجدے میں گرایا گیا تھا ۔ اس سے ذہن میں کچھ الجھنیں پیدا ہوتی ہیں ۔ البتہ اس واقعہ کے پس منظر کی چند باتیں اگر ذہن میں واضح ہوں تو پھر یہ الجھنیں دور ہوجاتی ہیں ، اس لیے پس منظر کو سمجھ لیں ۔ (1) اس زمانے میں مصر، عرب اور خود بنی اسرائیل میں بھی سجدہ تعظیمی کا رواج عام تھا ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی ان کے سامنے سجدہ تعظیمی ہی میں گرے تھے۔ اس لیے جادوگروں کے لیے سجدہ میں گرنا کوئی نامانوس بات نہیں تھی۔ (2) اس وقت مصر کے لوگ سورج پرست تھے ۔ اور سورج ان کا مہادیو یعنی رب اعلیٰ تھا ۔ اسی معاشرے میں ایک محکوم قوم کی حیثیت سے بنی اسرائیل بھی تھے جو توحید پر ست تھے۔ یہ نظریاتی تصادم ہی ان کی محکومیت کا سبب تھا ۔ اگر وہ سورج پرستی اختیار کرکے فرعون کو سورج مہادیو کا اوتار تسلیم کرلیتے تو ان کی محکومیت ختم ہوجاتی ۔ جیسے کہ قارون فرعون کی حکومت کا ایک اہم رکن بن گیا تھا ۔ حالانکہ وہ بنی اسرائیل میں سے تھا (28:76) (3) اس زمانے میں جادوگری ایک بہت معزز پیشہ تھا اور عام طور پر جادوگر لوگ اپنے فن کے علم کے ساتھ ساتھ دیگر علوم سے بھی بخوبی واقف ہوتے تھے۔ جیسے مسلمانوں کے عروج کے زمانے میں طیبب یعنی حکیم ہونا ایک بہت معزز پیشہ تھا اور عام طور پر حکیم لوگ حکمت کے ساتھ ساتھ اسلامی فقہ ، شعر وادب ، فلکیات وغیرہ جیسے علوم سے بھی پوری واقفیت رکھتے تھے۔ اسی طرح جادوگر لوگ توحید اور سورج پرستی کے نظریاتی تصادم کے علمی مضمرات سے بخوبی واقف تھے ۔ (4) جادوگری کے علم اور فن پر عبور حاصل ہونے کی وجہ سے ان میں ہی یہ صلاحیت سب سے زیادہ تھی کہ وہ جادو اور معجزے میں تمیز کرسکیں ۔ یہ وہ عوامل ہیں جن کی بنیاد پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عصا کو اژدھا بنتے دیکھ کر ان پر حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جادوگر نہیں ہیں بلکہ واقعی اللہ کے رسول ہیں ۔ ان کا یہ احساس اتنا شدید تھا کہ وہ بےساختہ سجدے میں گرپڑے ، ان کے احساس کی شدت اور بےساختگی کی کیفیت کو اجاگر کرنے کے لیے یہاں فعل مجہول القی استعمال ہوا ہے ۔
Top