Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 120
وَ اُلْقِیَ السَّحَرَةُ سٰجِدِیْنَۚۖ
وَاُلْقِيَ : اور گرگئے السَّحَرَةُ : جادوگر سٰجِدِيْنَ : سجدہ کرنے والے
اور ڈال دیئے گئے جادوگر سجدے میں
ربط آیات گزشتہ درس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے جادوگروں کے درمیان مقابلے کا ذکر ہوا تھا معجزات دیکھ کر فرعون نے کہا یہ بڑا جادوگر ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ تمہیں تمہارے ملک سے نکال دے او خود عمان حکومت سنبھال لے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف فرعون کے سرداروں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی فرعون کو مشورہ دیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف کوئی کارروائی کرنے میں جلدی نہ کی جائے بلکہ اسے مہلت دی جائے انہوں نے کہا کہ ملک کے بڑے بڑے جادوگروں کو اکٹھا کرکے موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ مقابلہ کرایا جائے اس پروگرام کے تحت تمام چیدہ چیدہ ساحروں کو جمع کیا گیا سب لوگ میدان میں اکٹھے ہوگئے موسیٰ (علیہ السلام) کے کہنے پر جادوگروں نے اپنا کرتب دکھایا ان کے مقابلے میں اللہ کے حکم سے آپ نے اپنی لاٹھی میدان میں ڈال دی وہ بہت بڑا اژدھا بن گیا اور جادوگروں کے بنائے ہوئے چھوٹے چھوٹے سارے سانپوں کو نگل گیا اس طرح حق ثابت ہوگیا اور فرعونی مغلوب ہوگئے اور نہایت ذلیل ہو کر وہاں سے لوٹے۔ اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے جادوگروں کا حال بیان فرمایا ہے۔ ساحرین کا اعتراف حقیقت جب جادوگروں نے دیکھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی لاٹھی سے بننے والا اژدھا ان کے بنائے ہوئے سارے سانپوں کو نگل گیا تو وہ دم بخود رہ گئے وہ سمجھے گئے کہ جو کچھ موسیٰ (علیہ السلام) نے پیش کیا ہے وہ حقیقت ہے اگر یہ بھی جادو ہوتا تو جس طرح ہمارے بنائے ہوئے سانپ دوڑتے پھرتے تھے اسی طرح موسیٰ (علیہ السلام) کا اژدھا بھی چلتا پھرتا نظر آتا مگر اس کا جادو کے سانپوں پر غالب آجانا اس کی حقیقت کو ظاہر کررہا تھا پھر انہوں نے کیا کیا ؟ والقی السحرۃ سجدین اور سجدے میں ڈال دیئے گئے یعنی جادوگر اس قدر دم بخود ہوئے کہ انہیں اس کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آیا کہ وہ فوراً سجدہ ریز ہوگئے گویا اعتراف حقیقت کرلیا کہ یہ کسی انسانی طاقت کا کام نہیں بلکہ اس کام کو انجام دینے والی کوئی بلند وبالا طاقت ہے جادوگروں کی اس بےقابو حالت کو اللہ تعالیٰ نے القی سے تعبیر کیا ہے ان پر دہشت طاری ہوگئی۔ ساحر ایمان لے آئے جادوگر سجدہ ریز ہوگئے اور قالوا امنا برب العلمین کہنے لگے کہ ہم تمام جہانوں کے پروردگار پر ایمان لے آئے ہیں جس نے موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ پر یہ واضح نشانی ظاہر کردی رب تو فرعون بھی اپنے آپ کو کہلاتا تھا اس لیے وہاں شبہ پیدا ہوسا تھا کہ جادوگر کس رب پر ایمان لائے ہیں فرعون پر یا اس رب پر جس کی دعوت موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے بھائی ہارون (علیہ السلام) دیتے ہیں تو اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے ساحروں نے کہا رب موسیٰ و ہارون ہم اس رب پر ایمان لائے ہیں جو موسیٰ اور ہارون (علیہا السلام) کا رب ہے وہی رب العلمین جس نے ہزاروں ساحروں کے سحر کو ایک لحظہ میں باطل کرکے رکھ دیا ہے بہرحال اس عظیم معجزے کا فرعون پر تو اثر نہ ہوا وہ اپنی ضد پر اڑا رہا مگر ہزاروں ساحر جو کفر کے غلبے اور اپنی پیٹ پروری کے لیے آئے تھے ان کی کایا پلٹ گئی انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کی صداقت کو تسلیم کرلیا اور رب العالمین پر ایمان لے آئے جو لوگ چند لمحے پہلے کافر اور مشرک تھے وہ یکایک ایماندار بن گئے فرعون کا ردعمل پہلے تو فرعون کے حواری حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف پراپیگنڈے کرتے ہے کہ یہ شخص تمہارے ملک پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اور خود تمہیں ملک بدر کردینا چاہتا ہے مگر جب مقابلے پر بلائے گئے جادوگر خود ایمان لے آئے تو فرعون کو خطرہ پیدا ہوگیا کہ اب باقی لوگ بھی ایمان قبول کرلیں گے لہٰذا اس نے جادوگروں کو ڈرانا دھمکانا شروع کردیا قال فرعون فرعون کہنے لگا امنتم بہ قبل ان اذن لکم تم میری اجازت کے بغیر ایمان لے آئے ہو اور موسیٰ (علیہ السلام) کی تصدیق کردی ہے کہنے لگا ان ھذا لمکر مکر تم وہ فی المدینۃ یہ تو ایک دائو ہے جو تم نے شہر میں کھیلا ہے لتخرجو منھا اھلک یہاں کے باشندوں کو نکال باہر کرو فرعون کہنے لگا کہ یہ تمہاری اور موسیٰ (علیہ السلام) کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے یہ سب کچھ تم نے ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت کیا ہے تم نے موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ نورا کشتی کی ہے تم نے اپنی شکست پہلے سے طے کرلی تھی اور اس آڑ میں موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ مل کر حکومت پر قبضہ کرنا چاہت ہو۔ کہنے لگا فسوف تعلمون تمہیں جلد علم ہوجائے گا کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں میں تمہیں اس بغاوت کا ضرور مزا چکھائوں گا۔ سخت سزا کی دھمکی پھر فرعون نے جادوگروں کو دھمکی دی لاقطعن ایدیکم وارجلکم من خلاف میں ضرور کاٹ دوں گا تمہارے ہاتھ اور پائوں الٹے۔ یہاں پر لام تاکیدی اور ن ثقیلہ دونوں تاکید کے لیے آئے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ میں یہ کارروائی ضرور بالضرور کرکے رہوں گا الٹے ہاتھ پائوں کاٹنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف کا ہاتھ کاٹ دیا جائے اور دوسری طرف کا پائوں۔ سورة مائدہ میں ڈاکو کی یہی سزا بیان کی گئی ہے کہ انہیں قتل کردیا جائے یا سولی پر چڑھا دیاجائے او تقطع ایدیھم وارجلھم من خلاف یا ان کے ہاتھ اور پائوں الٹے کاٹ دیئے جائیں یا انہیں ملک بدر کردیاجائے ایسی سزا دیتے وقت ہاتھ کلائی سے کاٹا جاتا ہے اور پائوں ٹخنے سے۔ اگر ہاتھ پائوں کاٹا جائے اگر ہاتھ دایاں ہو تو پائوں بایاں ہوتا ہے اور ہاتھ بایاں ہو تو پائوں دایاں۔ ڈاکو اور راہزن کے جرم کی نوعیت کے مطابق حاکم وقت چار قسم کی سزائیں دے سکتا ہے یعنی قتل کردیاجائے ، سولی پر چڑھا دیاجائے ، الٹے ہاتھ اور پائوں کاٹے جائیں یا قید کردیا جائے (یا ملک بدر کردیاجائے) جیسا حاکم مناسب سمجھے ویسی سزا دے دے۔ بشمول رجم اس قسم کی سخت سزائیں زمانہ قدیم سے بھی رائج تھیں چور کی قطع یدوالی سزا تورات میں بھی موجود ہے قرآن کی طرح رجم کی سزا بھی شرعیت موسوی میں روا تھی چناچہ فرعون نے جادوگروں کو دھمکی دی کہ میں تم سب کے الٹے ہاتھ اور پائوں کاٹ دوں گا ثم لاصلبتکم الجمعین پھر تم سب کو سولی پر چڑھا دوں گا تاکہ لوگوں کو دیکھ کر عبرت ہو کہ ملک کے غداروں کا یہ حشر ہوتا ہے محدثین اور فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ عبرت کے لیے اس قسم کی سزا کو مشتہر کرنا ہماری شریعت میں بھی جائز ہے کسی مجرم کو چورا ہے میں سولی پر چڑھا کر کچھ دن تک لٹکتا چھوڑ دیا جائے یا چور کا ہاتھ کاٹ کر ہفتہ بھر کے لیے اس کے گلے میں لٹکا دیاجائے تاکہ وہ جہاں جائے لوگوں کو عبرت ہو کہ مجرم کو اس طرح سزا دی جاتی ہے ای طرح قصاص میں قتل کرنے کی سزا بھی سرعام دی جاتی ہے تاکہ لوگ دیکھ کر عبرت پکڑیں۔ ساحروں کی رسخ الایمانی فرعون کی اس دھمکی کا جادوگروں پر کچھ اثر نہ ہوا کیونکہ وہ تو ایمان کی دولت سے مالا مال ہوچکے تھے وہ اس قسم کی سزائوں سے بےنیاز تھے انہیں علم تھا کہ اگر وہ قتل کردیئے گئے تو بہرحال اپنے رب کے ساتھ ملاقات کریں گے جس پر وہ ایمان لاچکے تھے کہنے لگے قالو انا الی ربنا منقلبون بیشک ہم تو اپنے رب کی طرف لوٹ کرجانے والے ہیں اگر تو ہمیں سزا دے گا تو وہ رب تیرے جیسے ظالموں کو بھی سزا دیے بغیر نہیں چھوڑے گا ہم اس قادر مطلق کے پاس جا رہے ہیں جس کے قبضہ قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں جب وہ پکڑنے پر آئے گا تو پھر تیرا حشر بھی بہت برا ہوگا انہوں نے مزید کہا کہ وما تنقم منا الا ان امنا بایت ربنا لما جاء تنا تم ہم میں کیا عیب پاتے ہو سوائے اس کے کہ ہم اپنے رب کی نشانیوں پر ایمان لے آئے ہیں جب وہ ہمارے پاس آگئیں ہم معجزات کو دیکھ کر ان کی حقیقت کو پہچان گئے ہیں لہٰذا ہم ایمان لائے ہیں بجز اس کے ہمارا کیا قصور ہے ؟ ہماری نہ کسی سے عداوت ہے نہ دشمنی نہ کسی کا مال چھینا ہے اور نہ کسی کو بےآبرو کیا ہے ؟ آخر ہمیں کس جرم کی سزا دی جائے گی ؟ اس قسم کے الفاظ بعض دوسری قوموں کے متعلق بھی قرآن پاک میں آئے ہیں مثلاً جب اصحاب الاخدود کو آگ میں ڈالا گیا تو انہوں نے بھی یہی کہا تھا ” وما نقموا منھم الا ان یومنو باللہ العزین الحمید “ اس کے سوا ان کا کیا قصور تھا کہ وہ اللہ عزیز وحمید پر ایمان لائے تھے حضور ﷺ کے اولین رفقاء جو عام طور پر غریب اور کمزور لوگ تھے وہ بھی مشکلات برداشت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمارا اس کے سوا کیا جرم ہے کہ ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں جو ہمارا رب ہے ایمان تو کمال درجے کی چیز ہے جسے تم جرم سمجھ کر سزا دیتے ہو بہرحال ساحرین بھی کامل الایمان ہوچکے تھے جو کہ اولیاء اللہ کا درجہ ہے اللہ کے بندے ہر آزمائش کو برداشت کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور یہی عزم ان جادوگروں کا بھی تھا جو موسیٰ اور ہارون (علیہا السلام) کے رب پر صدق دل سے ایمان لاچکے تھے۔ دعائے صبر جب جادوگروں کو یقین ہوگیا کہ فرعون انہیں سزا دیے بغیر نہیں چھوڑے گا تو انہوں نے ایمان پر استقامت اور مصائب پر صبر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور ہاتھ پھیلا دیئے کہنے لگے ربنا افرغ علینا صبراً اے ہمارے پروردگار ! ڈال دے ہم پر صبر ، صبر ملت ابراہیمیہ کا ایک اہم اصول ہے توحید ، ایمان ، شکر ، تعظیم شعائر اللہ ، نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ ، جہاد اور صبر نہایت اعلیٰ درجے کے اصول ہیں سورة بقرہ میں آتا ہے اے ایمان والو ! استعینوا بالصبروالصلٰوۃ جب کبھی مصیبت آجائے تو صبر اور نماز کے ساتھ استعانت طلب کرو بعض احادیث میں آتا ہے کہ ایمان کے دو حصے ہیں نصف حصہ صبر میں ہے اور دوسرا نصف شکر میں۔ حضرت علی ؓ کے قول میں جہاں ایمان کے ستون شمار کیے گئے ہیں وہاں صبر کو بھی ایک ستون کہا گیا ہے ایک روایت میں اس طرح آتا ہے الصبر من الایمان بمنزلۃ الراس من الجسد صبر کا تعلق ایمان کے ساتھ اس طرح لازمی ہے جس طرح سر کا تعلق دھڑ سے ہے جسم سر کے بغیر بےجان ہوجاتا ہے اور ایمان صبر کے بغیر باقی نہیں رہتا۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے سل اللہ العافیۃ یعنی اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کیا کرو ، سلامتی چاہو اور آزمائش کی خواہش کبھی نہ کرو اور جب تم کسی مصیبت میں ڈال دیے جائو تو صبر کرو اگر میدان جنگ میں دشمن کے ساتھ آمنا سامنا ہوجائے تو جان لو ان الجنۃ تحت ظلال السیوف جنت تلواروں کے سایے میں ہے اس وقت ثابت قدم رہو اور صبر سے کام لو مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ عافیت کے طالب رہو اور جب مصیبت آہی جائے تو پھر صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو چناچہ طالوت کے ساتھیوں نے جالوت کے مقابلے میں یہی دعا کی تھی ربنا افرخ علینا صبراً وثبت اقدامنا (البقرہ) اے مولا کریم ! ہم پر صبر ڈال دے اور ہمارے قدموں کو مضبوط کردے جنگ احد کے موقع پر بھی مسلمانوں نے یہی دعا کی تھی کہ اے اللہ ہمارے گناہ اور زیادتیاں معاف کردے ہمارے قدم مضوبط کردے اور کافروں کے خلاف ہماری مدد فرما مطلب یہ ہے کہ کامل مومنین نے جزع فزع کرنے کی بجائے مصیبت کے وقت ہمیشہ صبر اور استقامت الٰہی کی دعا کی اس مقام پر ایمان لانے والے ساحروں نے بھی اپنے پروردگار سے صبر ہی کی دعا کی۔ اس بات میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ جس سزا کی دھمکی فرعون نے دی تھی وہ فی الواقع دی بھی تھی یا نہیں بعض فرماتے ہیں کہ یہ محض دھمکی تھی اس پر عمل درآمد نہیں ہوا تھا بلکہ جادوگروں کو زندہ چھوڑ دیا گیا تھا۔ بعض فرماتے ہیں کہ فرعون نے عام حیثیت کے جادوگروں کو تو رہا کردیا تھا مگر سرکردہ جادوگروں کو سزائے موت دیدی تھی تاہم فرعون کے مزاج کی جس قسم کی جھلک نظر آتی ہے اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس نے سزا ضرور دی ہوگی جادوگروں کو بھی سزا کا یقین ہوچکا تھا اسی لے انہوں نے صبر و استقامت کے لیے دعا کی تھی۔ صبر کی بعض دوسری قسمیں بھی ہیں مثلاً صبر مصیبت پر بھی ہوتا ہے اور اطاعت پر بھی۔ نفس کو خواہشات سے روکنے پر بھی صبر کی ضرورت پیش آتی ہے امام غزالی (رح) فرماتے ہیں کہ صبر کا مفہوم بڑا وسیع ہے صبر کے بغیر اطاعت بھی نہیں ہوسکتی جب تک انسان صبر سے کام نہ لے نہ وضو ہوسکتا ہے اور نہ غسل اور نہ نماز ادا ہوسکتی ہے اور نہ روزے کا فریضہ ہمارے دین میں صبر بہت بڑا اصول ہے۔ اسلام پر موت بہرحال جادوگروں نے رب العزت سے ایک تو صبر کی دعا کی اور دوسری عرض یہ کی وتوفنا مسلمین اے مولا کریم ! ہمیں ایسی حالت میں موت دینا کہ ہم مسلمان ہوں یعنی تیرے مکمل طور پر اطاعت گزار ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر انبیاء حضرات ابراہیم (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو یہی نصیحت کی تھی فلاتموتن الا وانتم مسلمون (البقرہ :132) تمہاری موت صرف اسی حالت میں آنی چاہیے کہ تم اطاعت کرنے والے ہو یعنی تمہاری موت اسلام کی حالت میں آنی چاہیے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بھی یہی دعا کی تھی توفنی مسلماً والحقنی بالصلحین سورة یوسف) اے اللہ ! مجھے اسلام پر مبوت دینا اور صالحین کی رفاقت نصیب فرما۔ موت ایک غیر اختیاری چیز ہے اور یہ اسی وقت آئے گی جب اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا تاہم اسلام کی حالت میں آئے کہ ہم مسلمان یعنی تیری اطاعت کرنے والے ہوں۔ یہ جادوگروں کی دعا تھی جنہوں نے ایمان کو قبول کرلیا تھا اس سے پہلے وہ کفر کی حالت پر تھے جب موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات دیکھے تو انہیں یقین ہوگیا کہ یہ جادو نہیں بلکہ اس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے جو قادر مطلق ہے لہٰذا وہ کامل ایمان لاکر اولیاء اللہ کی صف میں شامل ہوگئے دوسری آیات میں یہ بھی تشریح ہے کہ جب فرعون نے سزا دینے کی دھمکی دی تو ساحروں نے اس سے کہا تھا کہ تو ہمیں ہماری دنیاوی زندگی ختم کرنے کی دھمکی دیتا ہے مگر تیرے اختیار میں اس کے سوا ہے بھی کیا ؟ تو بیشک ہمیں موت سے ہمکنار کردے مگر ہمیں اپنے رب سے امید ہے کہ وہ ہماری غلطیوں کو معاف کرکے ہمیں اعلیٰ درجہ عطا کرے گا اور اپنا قرب نصیب کرے گا ظاہر ہے کہ جب کسی انسان کا ایمان مکمل ہوجاتا ہے تو پھر اس سے اسی بات کی توقع ہوتی ہے۔
Top