Al-Qurtubi - Al-Insaan : 9
اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِیْدُ مِنْكُمْ جَزَآءً وَّ لَا شُكُوْرًا
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں نُطْعِمُكُمْ : ہم تمہیں کھلاتے ہیں لِوَجْهِ اللّٰهِ : رضائے الہی کیلئے لَا نُرِيْدُ : ہم نہیں چاہتے مِنْكُمْ : تم سے جَزَآءً : کوئی جزا وَّلَا شُكُوْرًا : اور نہ شکریہ
(اور کہتے ہیں کہ) ہم تم کو خالص خدا کے لئے کھلاتے ہیں نہ تم سے عوض کے خواستگار ہیں نہ شکر گزاری کے (طلبگار)
انما نطعمکم لوجہ اللہ لانرید منکم جزاء ولاشکورا۔ وہ مسکین، یتیم اور اسیر کو اپنی زبانوں سے یہ کہتے ہیں ہم تمہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور اس کے ثواب کی امید رکھتے ہوئے کھلاتے ہیں ہم تم سے کسی بدلہ کا ارادہ نہیں رکھتے اور نہ یہ چاہتے ہیں کہ تم اس بارے میں ہماری تعریف کرو۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا دنیا میں جب وہ کھاناکھلاتے تھے تو ان کی یہی نیتیں ہوا کرتی تھیں سالم نے مجاہد سے یہ روایت نقل کی ہے انہوں نے و اپنی زبانوں سے یہ بات نہیں کی لیکن اللہ تعالیٰ کو ان کے بارے میں علم تھا اس لیے ان کی ان الفاظ سے تعریف کی تاکہ رغبت کرنے والا اس بارے میں ان سے رغبت کرے۔ سعید بن جبیر نے یہ بات کہی، قشیری نے ان سے یہ نقل کیا ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے، یہ آیت مطعم بن ورقاء کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے نذر مانی تھی اور اسے پورا کیا تھا ایک قول یہ کیا گیا ہے یہ آیت ان مہاجرین کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے بدر کے قیدیوں کی کفالت اٹھائی تھی وہ سات افراد تھے، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت علی، حضرت زبیر، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت سعد اور حضرت عبیدہ رضوان اللہ علیم اجمعین۔ یہ ماوردی نے ذکر کیا ہے مقاتل نے کہا یہ ایک انصاری کے حق میں نازل ہوئی جس نے ایک دن میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلایا تھا۔ ابوحمزہ ثمالی نے کہا، مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ ایک آدمی نے عرض کی یارسول اللہ مجھے کھانا کھلائیے بیشک میں سخت مشقت میں ہوں فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میرے پاس تو کوئی ایسی چیز نہیں جو میں تجھے کھلاؤں لیکن تو کسی کو تلاش کر۔ ایک انصاری کے پاس آیاجو اپنی بیوی کے ساتھ رات کا کھانا کھارہا تھا اس آدمی نے اس انصاری سے سوال کیا اور رسول اللہ کا ارشاد ذکر کیا، بیوی نے کہا، اسے کھلاؤ، اسے پلاؤ پھر نبی کریم کے پاس ایک یتیم آیا اس نے عرض کی یارسول اللہ مجھے کچھ کھلائیے، فرمایا میرے پاس تو ایسی کوئی چیز نہیں جو تجھے کھلاؤں لیکن تم تلاش و جستجو کرو۔ اس یتیم نے اس انصاری سے کھانا طلب کیا اس کی عورت نے کہا، اسے کھلاؤ اور اسے پلاؤ، تو اس انصاری نے کھلایا، پھر نبی کریم کے پاس ایک قیدی آیا اس نے عرض کیا یارسول اللہ مجھے کچھ کھلائیے آپ نے فرمایا اللہ کی قسم میرے پاس کچھ بھی نہیں جو میں تجھے کھلاؤں بلکہ تم طلب کرو۔ وہ اسی انصاری کے پاس گیا اس نے اس سے مطالبہ کیا اس کی بیوی نے کہا، اسے کھلاؤ اور اسے پلاؤ تو یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ ثعلبی نے ذکر کیا ہے، علماء تفسیر نے کہا، یہ آیت حضرت علی شیر خدا اور حضرت فاطمہ اور ان کی لونڈی فضہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ تمام نیک لوگ کے بارے میں نازل ہوئی اور جس نے بھی کوئی اچھا عمل کیا یہ آیت عام ہے، نقاش، ثعلبی، قشیری اور دوسرے کئی مفسرین نے حضرت علی شیر خدا، حضرت فاطمہ الزہرا اور ان کی لونڈی کے بارے میں ایک روایت نقل کی ہے، جو صحیح اور ثابت نہیں اسے لیث نے مجاہد سے وہ حضرت ابن عباس سے روایت نقل کرتے ہیں، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین دونوں مریض ہوئے رسول اللہ نے دونوں کی عیادت کی اور عام لوگوں نے بھی ان کی عیادت کی انہوں نے کہا : اسے ابوالحسن جابر جعفی نے قنبر سے جو حضرت علی کے غلام تھے سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین بیمار ہوئے یہاں تک کہ رسول اللہ کے صحابہ نے ان کی عیادت کی تو حضرت ابوبکر نے فرمایا، اے اباالحسن پھر حدیث، لیث بن سلیم کی حدیث کی طرف لوٹ جاتی ہے کاش، آپ اپنے بیٹوں کی جانب سے کوئی نذر مانتے ہر نذر جس کو پورا نہ کیا جائے تو وہ کوئی چیز نہیں ہوتی۔ حضرت علی شیر خدا نے فرمایا، اگر میرے دونوں بچے صحت مند ہوجائیں تو میں شکرانہ کے طور پر اللہ تعالیٰ کے لیے تین روزے رکھوں گا، ان کی لونڈی نے کہا، اگر میرے دونوں سردار صحت مند ہوگئے تو میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے تین روزے رکھوں گی۔ حضرت فاطمہ نے بھی اسی طرح کہا، جعفی کی حدیث میں ہے حضڑت امام حسن اور حضرت امام حسین نے کہا، ہم پر بھی اس کی مثل ہے دونوں بچے صحت مند ہوگئے جبکہ سرورددوعالم کے آل کے ہاں کچھ بھی نہ تھا۔ حضرت علی شمعون بن حاریا خیبری کے پاس گئے وہ یہودی تھا اس سے تین صاع جو ادھار لیے اور انہیں لے آئے اسے گھر کے ایک کونے میں رکھا حضرت فاطمہ نے ایک صاع جو لیے اسے پیسا اور اس کی روٹیاں پکائیں، حضرت علی نے نبی کریم کے ساتھ نماز پڑھی پھر گھرآئے اور کھانا اپنے سامنے رکھا۔ جعفی کی حدیث میں ہے لونڈی نے ایک صاع جو لیے اس سے پانچ روٹیاں پکائیں ہر ایک کے لیے ایک روتھی جب پہلا روزہ مکمل ہوا تو انہوں نے اپنے سامنے روٹی اور نمک رکھا کہ ان کے پاس ایک مسکین جو مسلمان تھا آیا کہا اللہ کی قسم میں بھوکا ہوں مجھے کھانا کھلائیے اللہ تعالیٰ تمہیں جنت کے دسترخوان سے کھلائے حضرت علی نے اسے سنا توہ شعر پڑھنے لگے، فاطم ذات الفضل والیقین، یابنت خیر الناس اجمعین ،۔ اے فاطمہ اے فضل ویقین والی اے تمام لوگوں سے بہتر کی بیٹی۔ اما ترین الباس المسکین، قد قام بالباب لہ حنین۔ کیا تو محتاج کو نہیں دیکھتی دروازے پر ایسا آدمی کھڑا ہے جس کی دکھ بھری آواز آرہی ہے۔ یشکو الی اللہ ویستکین، یشکو الینا جائع حزین۔ وہ اللہ کی بارگاہ میں اپنی شکایت کرتا ہے اور ہمارے سامنے ایک بھوگا غمگین شکایت کرتا ہے۔ کل امری بکسبہ رھین، وفاعل الخیرات یستبین۔ ہر آدمی اپنے عمل کے بدلے میں رہن رکھا گیا ہے اور بھلائیاں کرنے والاواضح ہوتا ہے۔ موعدنا جنۃ علین حرمھا اللہ علی الضفین۔ ہمارے ساتھ اعلی علیین کا وعدہ کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے بخیل پر اسے حرام کردیا ہے۔ وللبخل موقف مھین تھوی بہ النار الی سجین۔ بخیل کے لیے رسوا کرنے والاٹھکانہ ہے جہنم اسے سجین تک لے جائے گی۔ شرابہ الحمیم والغسلین من یفعل الخیر یقم سمین، اس کا مشروب کھولتا ہوا پانی اور جہنمیوں کا نچڑان ہوگا جو بھلائی کرتا ہے وہ موٹا ہوگا۔ ویدخل الجنۃ ای حین۔ وہ جنت میں جس وقت چاہے گا داخل ہوجائے گا۔ حضرت فاطمہ کہنے لگیں : امرت عندی یا بن عم طاعیہ مابی من لوم ولاوضاعۃ، اے چچازاد تیرا حکم میرے نزدیک قابل اطاعت ہے میرے نزدیک ملامت کا باعث اور بےوقعت نہیں۔ غدیت فی الخبز لہ صناعہ، اطعمہ ولا ابالی الساعۃ۔ میں نے روٹی تیار کرنے میں دن صرف کردیا ہے اسے کھلاؤ اس وقت مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ ارجو اذا اشبعت ذالمجاعۃ ان الحق الاخیار والجماعۃ۔ جب میں بھوکے کو سیر کروں گی تو میں نیک لوگوں اور جماعت کے ساتھ جاملوں گی۔ وادخل الجنۃ شفاعۃ، میں جنت میں داخل ہوجاؤں گی میرے لیے شفاعت ہے۔ گھروالوں نے اسے کھانا کھلایا وہ اس دن اور رات بھوکے رہے اس روز انہوں نے خالص پانی کے سوا کچھ نہ چکھا جب دوسرا دن ہوا تو انہوں نے دوسرا صاع جو کا لیا اسے پیسا اور اس سے روٹی پکائی حضرت علی نے نبی کریم کے ساتھ نماز پڑھی پھر آپ گھرآئے اور کھانا اپنے سامنے رکھا تو دروازے پر ایک یتیم آکھڑا ہوا اور اس نے کہا، السلام علیکم حضرت محمد کے گھروالو۔ میں مہاجرین کی اولاد میں سے ایک یتیم ہوں میرا والد یوم عقبہ کو شہید ہوگیا مجھے کھانا کھلاؤ اللہ تعالیٰ آپ کو جنت کے دسترخوان سے کھانا کھلائے گا حضرت علی نے اس کی آواز سنی اور شعر پڑھنا شروع کردیے۔ فاطم بنت السید الکریم بنت بنی لیس باالزنیم۔ اے سید کریم کی بیٹی، اے نبی کی بیٹی ! جو بےشان نہ تھے۔ لقد اتی اللہ بذی الیتیم، من یرحم الیوم یکن رحیم۔ اللہ تعالیٰ ایک یتیم کو لایا جو آج اس پر رحم کرے گا اس پر رحم کیا جائے گا۔ ویدخل الجنۃ ای سلیم، وقد حر الخلد علی اللتیم۔ جن تمہیں کوئی بھی سلیم الفطرت داخل ہوجائے گا اور وہ جنت کمینے آدمی پر حرام کردی گئی ہے۔ الایجوز الصراط المستقیم، یزل فی النار الی الجحیم۔ وہ پلصراط پر سے نہیں گزرے گا اور وہ جحیم تک آگ میں پھسلتا ہی جائے گا۔ شرابہ الصدید والحمیم۔ اس کا مشروب پیپ اور کھولتا ہوا پانی ہوگا۔ حضرت فاطمہ نے یہ کہنا شروع کردیا : اطعمہ الیوم ولا ابالی ولوثر اللہ علی عیالی۔ آج اسے کھلاؤ اور مجھے کوئی پرواہ نہیں اللہ تعالیٰ نے اسے ہماری اولاد پر ترجیح دی ہے۔ آمنو جیاعا وھم اشبالی، اصغرھم یقتل فی القتال۔ انہوں نے بھوکے شام کی جب کہ وہ میرے شیر ہیں ان میں سب سے چھوٹا جنگ میں قتل کیا جاتا ہے۔ بکربلا یقتل باغتیال، یاویل للقاتل مع وبال۔ کربلا میں اسے دھوکے سے قتل کیا جائے گا ہائے قاتل کے لیے عذاب کے ساتھ ہلاکت ہے۔ تھوی بہ النار الی سفال، وفی یدیہ الغل والاغلال۔ آگ انہیں نیچے تک لے جائے گی اور اس کے ہاتھوں میں طوق اور بیڑیاں ہوں گی۔ انہوں نے اسے کھانا کھلادیا وہ دن اور دوراتیں ٹھہرے رہے انہوں نے خالص پانی کے سوا کچھ نہیں چکھا، جب تیسرادن تھا تو انہوں نے باقی ماندہ صاع لیا اور اس کو پیسا اس کی روٹیاں پکائیں۔ حضرت علی نے نبی کریم کے ساتھ نماز پڑھی پھ روہ گھرآئے کھانا ان کے سامنے رکھا گیا کہ ایک قیدی ان کے پاس آگیا وہ دروازے پر کھڑا ہوگیا اس نے کہا، اے محمد کے خاندان والو تم ہمیں قیدی بناتے ہو ہمیں باندھتے ہو اور ہمیں کھانا نہیں کھلاتے مجھے کھانا کھلاؤ کیونکہ میں حضرت محمد کا قیدی ہوں۔ حضرت علی نے اس کی بات سنی تو آپ یہ اشعار پڑھنے لگے فاطم یابنت النبی احمد، بنت نبی سید مسود۔ اے فاطمہ اے نبی احمد کی بیٹی، اے سردار نبی کی بیٹی۔ وسماہ اللہ فھو محمد قد زانہ اللہ بحسن اغید۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام رکھا پس وہ محمد ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت ہی حسین بنایا ہے۔ ھذا سیر للنبی المھتد مثقل فی غلۃ مقید۔ یہ ہدایت یافتہ نبی کا قیدی ہے یہ اپنے طوق کے نیچے دبا جارہا ہے یہ بیڑیوں میں قید ہے۔ یشکو الینا الجوع قد تمدد، من یطعم الیوم یجدہ فی غد۔ وہ ہمارے سامنے طویل بھول کی شکایت کرتا ہے جو آدمی آج کھلاتا ہے کل اس پالے گا۔ عند العلی الواحد الموحد مایزرع الزارع سوف یحصد۔ اللہ تعالیٰ جو بلند شان والا یکتا ہے، جو اس کے ہاں نیکی کرے عنقریب اسے کاٹے گا۔ اعطیہ لالا تجعلیہ اقعد۔ اسے عطا کیجئے اسے رسوانہ کیجئے۔ حضرت فاطمہ نے یہ شعر پڑھنے شروع کردیے۔ لم یبق مماجاء غیر صاع، قد ذھبت کفی مع الذراع۔ جو وہ کھانا لائے اس میں سے صاع کے سوا کچھ بھی باقی نہیں بچا میری توہتھیلی بازو کے ساتھ جاتی رہی۔ ابنای واللہ ھم جیاع، یارب لاتترکھما ضیاع۔ اللہ کی قسم میرے دونوں بیٹے بھوکے ہیں اے میرے رب ان دونوں کو ضائع نہ ہونے دے۔ ابوھما للخیر ذو اصطناع، یصطفع المعروف باابتداع۔ ان دونوں کا والد نیکی کرنے والا ہے وہ شروع سے نیکی کرنے والا ہے۔ عبل الذارعین شدید الباع وما علی راسی من قناع۔ وہ بٹے ہوئے بازوں والا اور ضرورت مند ہے اور میرے سر پر اوڑھنی بھی نہیں۔ الا قناعا نسجہ انساع۔ مگر ایسی اوڑھنی جو تسمہ کی طرح بن گئی ہو۔ انہوں نے اسے کھانا دیا اور تیندن اور تین راتیں خالص پانی کے سوا انہوں نے کسی چیز کو نہ چکھا جب چوتھا دن تھا جب کہ نذر پوری ہوچکی تھی تو حضرت علی نے پانے دائیں ہاتھ میں حضرت حسن اور بائیں ہاتھ میں حضرت حسین کو پکڑا اور رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہ بھوک کی شدت سے چوزوں کی طرح کا نپ رہے تھے جب رسول اللہ نے انہیں دیکھا تو فرمایا۔ اے ابوالحسن میں تم میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں مجھے کس قدر تکلیف دے رہا ہے۔ ہمیں ہماری بیٹی کے پاس لے چلو وہ سب ان کی طرف گئے جبکہ وہ اپنی عبادت کی جگہ میں تھیں ان کا پیٹ ان کی پشت کے ساتھ لگا ہوا تھا جب رسول اللہ نے انہیں دیکھا اور ان کے چہرہ میں بھوک کے آثار کو دیکھا تو آپ رو دیے فرمایا اے للہ محمد کی گھر والے بھوک کی وجہ سے مرے جارہے ہیں۔ حضرت جبرائیل امین نازل ہوئے اور سورة دہر کی آیات تلاوت کیں۔ حکیم ترمذی، ابوعبداللہ نے، نوادرالاصول میں کہا، یہ حدیث من گھڑت ہے اس حدیث کو گھڑنے والے نے بڑی ذہانت کا کام لیا ہے یہاں تک کہ سننے والوں پر معاملہ مشتبہ ہوگیا اس روایت سے جاہل افسوس کرتے ہوئے ہونٹ کاٹتا ہے کہ وہ اس صفت پر کیوں نہیں۔ وہ نہیں جانتا کہ اس طرح کا عمل کرنے والاقابل مذمت ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، ویسئلونک ماذاینفقون، قل العفو۔ البقرہ 219) ۔ وہ آپ سے سوال کرتے ہیں وہ کیا خڑچ کریں فرمایے : ضرورت سے زائد۔ فضل سے مراد وہ مال ہے جو تیری اور تیرے خاندان کی ضرورریات سے زائد ہو۔ رسول اللہ نے متواتر ایسی روایات آئی ہیں جن میں یہ ذکر ہے کہ بہترین صدقہ وہ ہے جو اپنے پیچھے غنا چھوڑجائے اپنی ذات پر خرچ کرنا شروع کرو پھر ان پر خرچ کرو جو تیری زیرکفالت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خاوندوں پر اپنے گھروالوں اور اپنی اولاد کا نفقہ فرض کیا ہے۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا، ایک انسان کے لیے اتنا ہی گناہ کافی ہے کہ وہ قوت لایموت کو ضائع کردے۔ کیا کوئی عقل مند یہ گمان کرسکتا ہے کہ حضرت علی اس امر سے ناواقف تھے یہاں کہ انہوں نے پانچ چھ سال کے بچوں کو تین دن اور تین راتیں بھوکا رکھا یہاں تک کہ وہ بھوک کی وجہ سے پیچ وتاب کھانے لگے، پیٹ خالی ہونے کی وجہ سے ان کی آنکھیں اندر کو دھنس گئی یہاں تک کہ ان کی تکلیف نے رسول اللہ کو رلادیا چلو انہوں نے سائل کو اپنی ذات پر ترجیح دی کیا یہ جائز تھا کہ وہ اپنے گھروالوں کو اس چیز پر برانگیختہ کرتے، چلویہ مان لیاجائے کہ انہوں نے حضرت علی کی وجہ سے اس سخاوت کا اظہار کیا تو کیا یہ جائز تھا کہ وہ اپنے بچوں کو تین دن اور راتیں بھوک پر مجبور کرتے ؟ اس قسم کی روایات جہاں کے ہاں مشہور ہوسکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ بیدار دلوں کے بارے میں اس چیز کو ناپسند کرتا ہے کہ وہ حضرت علی کے بارے میں اس چیز کا گمان کرین۔ کاش میں یہ سمجھ سکتا کہ وہ کون تھا جس نے حضرت علی اور حضرت فاطمہ سے ان اشعارکویاد رکھا اور دونوں نے جو ایک دوسرے کو جواب دیا اسے یاد رکھایہاں تک کہ اس نے ان راویوں تک ان کو پہنچایا۔ یہ اور قسم کی روایات قیدیوں کی باتیں ہیں میرا یہی خیال ہے مجھے یہ بات پہنچی کہ کچھ لوگ قیدخانوں میں ہمیشہ قید رہتے وہ کسی حیلہ کے بغیر وہاں رہتے وہ قصہ گوئی کے طریقہ پر یہ روایات لکھتے اس قسم کی روایات پر مشق کی گئی جب اس قسم کی روایات ماہرین تک پہنچتیں تو وہ انہیں پھینک دیتے اور انہیں ناکارہ قرار دیتے ہر چیز کی کوئی نہ کوئی آفت ہوتی ہے اور دین کی آفت اور مکر بہت بڑھ کر ہے۔
Top