﴿وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ004﴾ (اور ہم نے آپ کا ذکر بلند کردیا) اس کی تفصیل بہت بڑی ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذکر کو اپنے ذکر کے ساتھ ملا دیا اذان میں، اقامت میں، تشہد میں، خطبوں میں، کتابوں میں، وعظوں میں، تقریروں میں، تحریروں میں اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ آپ کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عالم بالا میں بلایا آسمانوں کی سیر کرائی، سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچایا جب کسی آسمان تک پہنچتے تھے تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) دروازہ کھلواتے تھے، وہاں سے پوچھا جاتا تھا کہ آپ کون ہیں ؟ وہ جواب دیتے تھے کہ میں جبرائیل ہوں پھر سوال ہوتا تھا کہ آپ کے ساتھ کون ہے، وہ جواب دیتے تھے کہ محمد ﷺ ، اس طرح سے تمام آسمانوں میں آپ کی رفعت شان کا چرچا ہوا۔ علامہ قرطبی نے بعض حضرات سے اس کی تفسیر میں یہ بھی ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرات انبیاء کرام پر نازل ہونے والی کتابوں میں آپ کا تذکرہ فرمایا اور ان کو حکم دیا کہ آپ کی تشریف لانے کی بشارت دیں اور آخرت میں آپ کا ذکر بلند ہوگا۔ جبکہ آپ کو مقام محمود عطا کیا جائے گا اور اس وقت اولین و آخرین رشک کریں گے۔ آپ کو کوثر عطا کردیا جائے گا۔ دنیا میں اہل ایمان تو محبت اور عقیدت سے آپ کا ذکر کرتے ہی ہیں اہل کفر میں بھی بڑی تعداد میں ایسے لوگ گزرے ہیں اور اب بھی موجود ہیں جنہوں نے دنیا داری کی وجہ سے ایمان قبول نہیں کیا لیکن آپ کی رسالت و نبوت اور رفعت و عظمت کے قائل ہوئے آپ کی توصیف و تعریف میں کافروں نے مضامین بھی لکھے ہیں اور نعتیں بھی کہی ہیں اور سیرت کے جلسوں میں حاضر ہو کر آپ کی صفات اور کمالات برابر بیان کرتے رہتے ہیں۔