Anwar-ul-Bayan - An-Nahl : 46
اَوْ یَاْخُذَهُمْ فِیْ تَقَلُّبِهِمْ فَمَا هُمْ بِمُعْجِزِیْنَۙ
اَوْ : یا يَاْخُذَهُمْ : انہیں پکڑ لے وہ فِيْ : میں تَقَلُّبِهِمْ : ان کو چلتے پھرتے فَمَا : پس نہیں هُمْ : وہ بِمُعْجِزِيْنَ : عاجز کرنے والے
یا ان کو چلتے پھرتے پکڑ لے ؟ وہ (خدا کو) عاجز نہیں کرسکتے
(16:46) تقلبہم۔ مضاف مضاف الیہ۔ ان کی آمدوشد۔ ان کا چلنا پھرنا۔ ان کے سفر۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اور جگہ آیا ہے۔ فلا یغررک تقلبہم فی البلاد۔ (40:4) سو ان لوگوں کا شہروں میں چلنا پھرنا یعنی سفر کرنا تجھے دھوکہ میں نہ ڈال دے۔ تقلب (تفعل) سے۔ (ان) یأخذہم فی تقلبہم۔ وہ ان کو چلتے پھرتے میں پکڑ لے۔ معجزین۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ عاجز بنا دینے والے ۔ ناکام کردینے والے۔ تخوف۔ (تفعل) ڈرانا۔ خوف دلانا۔ خوف ظاہر کرنا۔ اس کا تعدیہ بذریعہ علی آیا ہے۔ باب تفعل کی خاصیتوں میں سے ایک خاصیت تدریج بھی ہے یعنی کسی چیز کو درجہ بدرجہ کرنا جیسے تجرع زید۔ زید نے گھونٹ گھونٹ کر پیا۔ یہاں بھی انہی معنوں میں آیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ بار بار ظالموں کو انتباہ کرتا ہے۔ جو زلزلوں کی صورت میں یا آندھیوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اگر پھر بھی وہ سبق حاصل نہ کریں اور باز نہ آئیں تو تدریجاً وہ ہلاک ہوجاتے ہیں۔ صاحب ضیاء القرآن نے قرطبی کے حوالہ سے تحریر کیا ہے کہ :۔ ایک روز حضرت فاروق اعظم ؓ منبر پر تشریف فرما تھے۔ آپ نے پوچھا : اے لوگو ! اویاخذہم علی تخوف۔ کا کیا مطلب ہے۔ سب خاموش ہوگئے ۔ بنی ہذیل کا ایک بوڑھا اٹھا اور اس نے عرض کی اے امیر المؤمنین یہ ہماری لغت ہے یہاں التخوف کا معنی التنقّص ہے، یعنی آہستہ آہستہ کسی چیز کا گھٹتے چلے جانا (اور اس نے اس کی تائید میں ابوبکر ہذلی کا یہ شعر پڑھا :۔ تخوف الرجل منہا تامکا قردا کما تخوف عود النبعۃ السفن ترجمہ :۔ کچاوے نے میری اونٹنی کی موٹی تازی اونچی کوہان کو گھسا کر کم کردیا ہے جس طرح نبعہ درخت کی لکڑی کو گھسانے والا آلہ گھسا کر چھوٹا کردیتا ہے) ۔ علی تخوف یہ من حیث لا یشعرون کا دوسرا رخ ہے۔ فان ربکم لرء وف رحیم۔ یہ اخذ علی تخوف کی تعلیل ہے۔ یعنی وہ انتباہ کر کے بار بار مصیبتیں لا کر ظالموں کو توبہ ورجوع کا موقعہ میسر کرتا ہے۔ کیونکہ وہ رؤف ورحیم ہے۔
Top