Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 103
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَمَثُوْبَةٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ خَیْرٌ١ؕ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّهُمْ : وہ اٰمَنُوْا : ایمان لاتے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگار بنتے لَمَثُوْبَةٌ : تو ٹھکانہ پاتے مِنْ : سے عِنْدِ اللہِ : اللہ کے پاس خَيْرٌ : بہتر لَوْ کَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : کاش وہ جانتے ہوتے
اور اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیزگاری کرتے تو خدا کے ہاں سے بہت اچھا صلہ ملتا اے کاش وہ اس سے واقف ہوتے
(2:103) ولو انھم امنوا۔ (ای امنوا بالرسول اوبما انزل الیہ او بالتورۃ) واؤ عاطفہ ہے لو انھم امنوا۔ جملہ شرطیہ اور واتقوا کا عطف جملہ سابقہ پر ہے اور یہ بھی جملہ شرطیہ دوم ہے۔ اور وجملہ لمثوبۃ من عند اللہ خیر۔ جواب شرط ہے اصل اس کی یوں ہوگی۔ ولو انھم امنوا واتقوا لا ثیبوا مثوبۃ من عند اللہ خیرا مما شروا بہ انفسھم اور اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیزگاری کرتے تو وہ ضرور صلہ پاتے خدا کے ہاں سے جو اس چیز سے بہتر ہوتا جس کے عوض انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا۔ لمثوبۃ میں لام تاکید کے لئے ہے۔ مثوبۃ۔ ثوب سے ہے جس کے معنی کسی چیز کے اپنی اصلی حالت کی طرف لوٹ آنے کے ہیں۔ یا غور و فکر سے جو حالت مقدر اور مقصود ہوتی ہے اس تک پہنچ جانے کے ہیں۔ اول الذکر کی مثال ثانی فلان الی دارہ۔ فلاں اپنے گھر لوٹ آیا۔ یا ثابت الی نفسی میری سانس میری طرف لوٹ آئی۔ مؤخر الذکر کی مثال ثوب ہے۔ کیونکہ صو وت کاتنے سے مقصود کپڑا بننا ہے لہذا کپڑا بن جانے پر گویا سوت اپنی حالت مقصود کی طرف لوٹ آتا ہے۔ یہاں مثوبۃ بمعنی اچھا بدلہ۔ ثواب، جزاء ہے۔ خیر یہاں بطور صیغہ افعل التفضیل ہے۔ مفضل علیہ (سحر) کو یا تو اس لئے حذف کیا گیا کہ مفضل کو مفضل علیہ سے اس قدر عالی سمجھا کہ مفضل علیہ سے اس کو کسی قسم کی مناسبت ہو۔ یا اس واسطے کہ تخصیص کسی شے کی نہ رہے۔ تفضیل کل ہوجائے اور معلوم ہوجائے کہ مفضل جملہ اشیاء سے بہتر ہے ۔ لو کانوا یعلمون۔ آیت سابقہ ملاحظہ ہو۔
Top