Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 103
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَمَثُوْبَةٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ خَیْرٌ١ؕ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّهُمْ : وہ اٰمَنُوْا : ایمان لاتے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگار بنتے لَمَثُوْبَةٌ : تو ٹھکانہ پاتے مِنْ : سے عِنْدِ اللہِ : اللہ کے پاس خَيْرٌ : بہتر لَوْ کَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : کاش وہ جانتے ہوتے
اور اگر وہ ایمان لاتے اور تقویٰ کرتے تو بدلہ پاتے اللہ کے ہاں سے بہتر اگر ان کو سمجھ ہوتی
200 اگر یہ یہودی اللہ کے آخری رسول ﷺ اور قرآن پر ایمان لے آتے اور جادو کو چھوڑ کر قرآن کے مطابق عمل کرتے۔ یہ ان معاندین کے لیے ترغیب ہے، اور یہ اللہ تعالیٰ کی انتہائی رحمت و شفقت ہے کہ وہ ایسے سرکشوں اور ضدیوں کے یے بھی رشدوہدایت کی تمام راہیں کھولتا ہے۔ لَمَثُوْبَةٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ خَيْرٌ ۭ۔ یہ معنیً لَوْ کا جواب ہے۔ یعنی اگر وہ ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو انہیں اللہ کی طرف سے اجر ملتا اور اللہ کا ثواب یقیناً سحر اور کفر سے بہتر ہے۔ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ ۔ کاش کہ وہ اس حقیقت کو جانتے ہوتے۔ یہاں تک تو یہودیوں کے شبہات کا جواب تھا۔ اب آگے مسلمانوں کو یہودیوں کے ہتھکنڈوں اور ان کے ناپاک عزائم سے آگاہ کیا گیا ہے۔ یہودی تحریف وتلبیس کے ماہر تو تھے ہی جس کی قرآن نے بھی شبہات دی ہے اور خود موجودہ تورات بھی ان کی تحریف اور تلبیسِ حق کا ایک عظیم شاہکار ہے۔ یہودیوں نے سوچا کہ مسلمانوں میں علانیہ طور پر اور براہ راست شرک کا داخل کرنا تو بہت مشکل ہے لہذا کسی تدبیر اور سازش سے کام لینا چاہئے۔ مسلمان آنحضرت ﷺ کی توجہ اپنی طرف منعطف کرانے کے لیے لفظ راعنا استعمال کرتے تھے اس لفظ کے چونکہ دو معنی تھے ایک صحیح اور ایک موہم شرک اس لیے منافقین یہود نے بھی آپ کی مجلس میں حاضر ہو کر آپ کو راعنا کے لفظ سے مخاطب کرنا شروع کردیا۔ بظاہر اس لفظ کے معنی بہت عمدہ تھے یعنی ہمارا بھی خیال فرمائیے۔ یہودیوں نے سوچا کہ جب یہ لفط مسلمانوں میں رائج ہوچکا ہے تو ہمیں اس سے اپنا مطلب نکالنا چاہیے۔ کیونکہ اس لفظ کے دوسرے معنی یہ بھی ہیں کہ ہماری نگہبانی اور حفاظت فرمائیے۔ راعنا فی اللغۃ ارعنا ولنرعک لان المفاعلۃ من اثنین فتکون من رعاک اللہ ای احفظنا ولنحفظک وارقبنا ولنرقبک (قرطبی ص 57 ج 2) اس لفظ سے ان کا مقصد مسلمانوں میں غیر اللہ کے حافظ وناصر ہونے کا خیال ڈالنا تھا تاکہ غیر شعوری طور پر مسلمانوں میں شرک کا عقیدہ رائج ہوجائے تو اللہ تعالیٰ نے ایسے موہم شرک لفظ سے منع فرمادیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ موہم شرک الفاظ کا استعمال جائز نہیں۔ ان سے ہر حال میں اجتناب ہی کرنا چاہیے۔ جیسا کہ آج کل بعض جاہلوں میں اسی قسم کے موہم شرک الفاظ رائج ہیں۔ مثلا، جیسا کہ اللہ اور اس کے رسول نے چاہا، اور، یا پیر استاد، اور، یارسول اللہ، اور، یا خواجہ معین الدین اجمیری، وغیرہ وغیرہ۔
Top