Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 103
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَمَثُوْبَةٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ خَیْرٌ١ؕ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّهُمْ : وہ اٰمَنُوْا : ایمان لاتے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگار بنتے لَمَثُوْبَةٌ : تو ٹھکانہ پاتے مِنْ : سے عِنْدِ اللہِ : اللہ کے پاس خَيْرٌ : بہتر لَوْ کَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : کاش وہ جانتے ہوتے
اور اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو خدا کے ہاں سے بہت اچھا صلہ ملتا۔ اے کاش، وہ اس سے واقف ہوتے
وَلَوْ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَمَثُوْبَةٌ : اور اگر وہ (یہود) ایمان لے آتے (محمد ﷺ پر) اور (اللہ کے عذاب سے معاصی اور سحر کو چھوڑ کر) بچتے تو ان کا بدلہ) کسی فعل کے بدلہ کو ثواب اور مثوبہ اس لیے کہتے ہیں کہ ثاب یَثُوْبُ کے معنی لوٹنے کے ہیں چونکہ نکو کار بندہ بھی نیک کام کے بدلہ کی طرف رجوع کرتا ہے اس لیے اس بدلہ کو بھی ثواب کہنے لگے۔ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ خَيْرٌ ( اللہ کے پاس بہتر ہوتا) لَمَثُوبَۃٌ .... لَوْکا جواب ہے اور اصل اس کی لَاُثِیْبُوا مَثُوْبَۃٌ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ خَیْرًا بِمَا شَرَوْا بِہٖ اَنْفُسَھُمْ ہے ( بیشک ایسا ثواب دیئے جاتے کہ وہ اللہ کے یہاں اس سے بہتر ہوتا جس کے بدلہ انہوں نے اپنے نفس بیچے) فعل کو حذف کرکے باقی کو جملہ اسمیہ اس غرض سے بنا دیا کہ ثواب کے دوام اور ثبات اور اس کے یقینی خیر ہونے پر دلالت کرے اور مفضل علیہ ( سحر) کو یا تو اس لیے حذف کیا کہ مفضل کو اس سے عالی سمجھا کہ مفضل علیہ سے اس کو کسی قسم کی مناسبت ہو اور یا اس واسطے کی تخصیص کسی شے کی نر ہے۔ تفضیل کل ہوجائے اور معلوم ہوجائے کہ جملہ اشیاء سے بہتر ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ لَوْ تَمنی کا ہے اور لَمَثوْبَۃٌ کلام مستقل ہے۔ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ ( اگر جانتے ہوتے تو ایمان لے آتے) یعنی اگر جانتے کہ اللہ کا ثواب بہتر ہے اس کی جزاء میں بھی مثل سابق کے کلام ہے۔ ابن منذر نے روایت کیا ہے کہ مسلمان جناب رسول اللہ ﷺ سے کہا کرتے تھے ( اعنا اور اسے مراعاۃ سے مشتق گردانتے اور مطلب اس کلمہ کا یا تو یہ ہوتا کہ یا رسول اللہ کلام سننے میں ہماری رعایت فرمائیے۔ یعنی ہماری عرض معروض غور سے سنئے اور یا یہ معنی کہ جو کچھ آپ ہماری تعلیم کے لیے فرماتے ہیں اس میں رعایت فرمائیے اور ہمارے سمجھنے تک توقف فرمائیے۔ رعی کے معنی لغت میں دوسرے کی مصلحت کی نگہداشت کے ہیں یہود کی زبان میں لفظ راعن نہایت فحش گالی تھی۔ بعض نے کہا کہ انکے نزدیک اس کے یہ معنی تھے : اِسْمَعْ لَا سَمِعْتَ یعنی سن خدا کرے تو نہ سنے ( یعنی معاذ اللہ تیرے کان پھوٹیں) معاذ اللہ اور بعض نے کہا اس کے معنی تھے اور احمق گویا رعونت سے مشتق قرار دیتے ہیں۔ بہرحال جو کچھ بھی ہوں یہود نے جو سنا کہ مسلمان جناب سرور کائنات ﷺ کی خدمت میں یہ کلمہ بولتے ہیں تو انہیں ایک شگوفہ ہاتھ آگیا اور انہوں نے بھی اس کلمہ کو بہ نیت معنی قبیح ستعمال کرنا شروع کیا اور آپس میں (خدا ان پر لعنت کرے) خوف ہنسی اڑاتے۔ ایک روز سعد بن معاذ ؓ ان کی اس نیت فاسدہ کو پہچان گئے سن کر فرمایا اگر اب میں نے تم سے یہ کلمہ جناب فخر عالم ﷺ کی جناب میں کہتے سنا تو یاد رکھنا گردن اڑادوں گا وہ بولے کہ تم بھی تو کہتے ہو اس پر حق تعالیٰ نے ذیل کی آیت کریمہ نازل فرمائی۔
Top