Tafseer-e-Usmani - Al-Baqara : 103
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَمَثُوْبَةٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ خَیْرٌ١ؕ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّهُمْ : وہ اٰمَنُوْا : ایمان لاتے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگار بنتے لَمَثُوْبَةٌ : تو ٹھکانہ پاتے مِنْ : سے عِنْدِ اللہِ : اللہ کے پاس خَيْرٌ : بہتر لَوْ کَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : کاش وہ جانتے ہوتے
اور اگر وہ ایمان لاتے اور تقویٰ کرتے تو بدلہ پاتے اللہ کے ہاں سے بہتر اگر ان کو سمجھ ہوتی1
1  خلاصہ یہ کہ یہود اپنے دین اور کتاب کا علم چھوڑ کر علم سحر کے تابع ہوگئے اور سحر لوگوں میں دو طرف سے پھیلا۔ ایک حضرت سلیمان کے عہد میں۔ چونکہ جنات اور آدمی ملے جلے رہتے تھے تو آدمیوں نے شیطانوں سے سحر سیکھا اور نسبت کردیا حضرت سلیمان کی طرف کہ ہم کو انہی سے پہنچا ہے اور ان کو حکم جن اور انس پر اسی کے زور سے تھا " سو اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ یہ کام کفر کا ہے سلیمان کا نہیں دوسرے پھیلا ھاروت ماروت کی طرف سے وہ دو فرشتے تھے شہر بابل میں بصورت آدمی رہتے تھے ان کو علم سحر معلوم تھا جو کوئی طالب اس کا جاتا اول اس کو روک دیتے کہ اس میں ایمان جاتا رہے گا اس پر بھی باز نہ آتا تو اس کو سکھا دیتے اللہ تعالیٰ کو ان کے ذریعہ سے بندوں کی آزمائش منظور تھی سو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسے علموں سے آخرت کا کچھ نفع نہیں بلکہ سراسر نقصان ہے اور دنیا میں بھی ضرر ہے اور بغیر حکم خدا کے کچھ نہیں کرسکتے اور علم دین اور علم کتاب سیکھتے تو اللہ کے ہاں ثواب پاتے۔
Top