Madarik-ut-Tanzil - Al-Baqara : 103
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَمَثُوْبَةٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ خَیْرٌ١ؕ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّهُمْ : وہ اٰمَنُوْا : ایمان لاتے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگار بنتے لَمَثُوْبَةٌ : تو ٹھکانہ پاتے مِنْ : سے عِنْدِ اللہِ : اللہ کے پاس خَيْرٌ : بہتر لَوْ کَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : کاش وہ جانتے ہوتے
اور اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیزگاری کرتے تو خدا کے ہاں سے بہت اچھا صلہ ملتا اے کاش وہ اس سے واقف ہوتے
تفسیر آیت 103: 103: وَلَوْ اَنَّھُمْ ٰامَنُوْا : (اگر وہ ایمان لے آئے) ٰامنوا سے مراد رسول اللہ ﷺ اور قرآن پر ایمان لانا ہے۔ وَاتَّقَوْا : (اور تقویٰ اختیار کرتے) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے تو کتاب اللہ کا پیٹھ پیچھے پھینکنا اور شیاطین کی کتابوں کی اتباع چھوڑ دیتے۔ لَمَثُوْبَۃٌ مِّنْ عِنْدِاللّٰہِ خَیْرٌ لَوْکَانُوْایَعْلَمُوْنَ : (تو ضرور ثواب ہوتا اللہ تعالیٰ کے پاس سے بہتر اگر وہ جان لیتے) بیشک اللہ تعالیٰ کا ثواب بہت بہتر ہے ان غلط چیزوں سے جن میں وہ مبتلا تھے۔ اور وہ اس بات سے بخوبی واقف تھے۔ لیکن جب انہوں نے اپنے علم پر عمل ترک کیا۔ تو ان کو جاہل قرار دیا گیا۔ مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو بہتر بدلہ ملتا (اگر اپنے صحیح رخ پر قائم رہتے) کنایت ثواب : سوال : لَوْ کے جواب میں جملہ فعلیہ کی بجائے اسمیہ لائے ؟ جواب : کیونکہ اس میں ثواب کے ثابت کرنے اور پختہ کرنے کی زیادہ دلالت ہے۔ سوال : لمثوبۃ اللّٰہ خیر نہیں کہا بلکہ لمثوبۃ من عند اللہ خیر کہا گیا۔ جواب : اس لیے کہ لمثوبۃ من عند اللّٰہ خیر کا مطلب یہ ہے کہ تھوڑا سا ثواب بھی ان کے لیے کافی تھا۔ لَوْ کو یہاں تمنی کے لیے بھی قرار دیا گیا۔ گویا انہیں یہ کہا گیا۔ کاش کہ وہ ایمان لاتے پھر نیا کلام شروع کر کے کہا لمثوبۃ من عند اللّٰہ خیر۔
Top