Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 103
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَمَثُوْبَةٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ خَیْرٌ١ؕ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّهُمْ : وہ اٰمَنُوْا : ایمان لاتے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگار بنتے لَمَثُوْبَةٌ : تو ٹھکانہ پاتے مِنْ : سے عِنْدِ اللہِ : اللہ کے پاس خَيْرٌ : بہتر لَوْ کَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : کاش وہ جانتے ہوتے
اور اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیزگاری کرتے تو البتہ خدا کے ہاں کا اجر ان کے لیے بہتر تھا کاش ان کو علم بھی ہوتا
ترکیب : لو کلمہ شرط انہم ان اور جس میں کہ اس نے عمل کیا مصدر ہے موضع رفع میں بسبب فعلِ محذوف کے۔ کس لیے کہ لو کے بعد فعل ہوتا ہے تقدیرہ لو وقع۔ منھم انہم آمنوا سب جملہ شرط لمثوبۃ مبتداء موصوف من عند اللہ صفت خبر جملہ جوابِ لو راعنا امر ہے لیکن موضع نصب میں ہے کس لیے کہ یہ مفعول ہے لاتقولوا کا یود فعل الذین الخ ولا المشرکین موضع جر میں ہے کس لیے کہ معطوف ہے لفظ اہل پر ان ینزل جملہ مفعول یودمن خیر میں من زائدہ ہے من ربکم میں من ابتدائیہ ہے ماننسخ ماشرطیہ جازمہ مگر محلاً منصوب ہے۔ نات بخیر الخ جملہ جواب شرط ننسہا معطوف ہے نسخ پر لہ ملک السمٰوات مبتداء و خبر جملہ خبر ہے ان کی من ولی زائدہ ہے اور ولی موضع رفع میں ہے بسبب مبتدا ہونے کے اور لکم خبر اور نصیر معطوف ہے لفظ ولی پر اور من دون اللہ بسبب حال ہونے کے ولی سے محل نصب میں ہے والتقدیر مالکم من ولی من دون اللہ۔ تفسیر : خدا تعالیٰ یہود کے افعال ذمیمہ بیان فرما کر ارشاد کرتا ہے کہ اب بھی ان کے لیے وقت باقی ہے اگر وہ نبی آخر الزمان پر ایمان لاویں اور اچھے کام کریں تو ان کو آخرت میں بہت کچھ اجر ملے گا۔ (2) اس کے بعد مسلمانوں کو متنبہ کرتا ہے کہ یہود کی یہ حالت ہوگئی تم ان کی صحبت اور ان کے رویہ سے پر حذر رہا کرو۔ منجملہ اور باتوں کے ایک یہ کہ یہود جب نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو اپنی جبلی شرارت سے اثنائِ کلام میں حضرت سے راعنا کہتے جیسا کہ ہماری بول چال میں کہتے ہیں ذرا ادھر متوجہ ہوجیے یا ادھر خیال فرمایئے اور اس کلمہ میں اپنے نزدیک وہ یہ مراد رکھتے تھے کہ ہم آنحضرت ﷺ کو احمق اور چرواہا کہہ آتے ہیں۔ کس لیے کہ راعنا ظاہر میں تو مراعات سے مشتق ہے اور وہ اس کو رعونت سے لحاظ کرکے یاراعی بمعنی چرواہے سے خیال کرکے حضرت کو گالی دے جاتے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو منع کردیا کہ تقلید کرکے تم یہ کلمہ نہ کہا کرو۔ اگر ضرورت پڑے تو اس کی جگہ انظرنا کہہ دیا کرو کہ ہماری طرف خیال کیجئے کیونکہ یہ کلمہ ذومعنیین نہیں ہے اور اس کی بھی تمہیں کیا ضرورت ہے تم اول سے ہی حضرت کی بات کان لگا کر سنا کرو۔ (3) اس کے بعد ان کے اتباع نہ کرنے کی وجہ بیان فرماتا ہے کہ یہود اور مشرکین تمہارے دلی دشمن ہیں وہ یہ نہیں چاہتے کہ خدا کی رحمت (وحی) تم پر نازل ہو مگر خدا کا چاہا ہوتا ہے جس پر وہ چاہتا ہے اپنی رحمت خاصہ کو نازل کرتا ہے اس کا فضل بےنہایت ہے اس کو کسی خاندان اور قوم کی پابندی نہیں کہ خواہ مخواہ ہمیشہ سلطنت یا نبوت اسی خاندان میں رکھے اس کے بعد خدا تعالیٰ یہود کے شکوک و شبہات کا جواب دیتا ہے جو وہ اہل اسلام پر پیش کرکے ان کے دلوں میں وسوسہ ڈالتے تھے وہ کہتے تھے کہ اگر تم پر خدا کی طرف سے خیر یعنی وحی اور شریعت نازل ہوتی ہے تو خیر کے منسوخ اللہ اور جس قدر جاہل اور مدبر قومیں ہیں ان میں بجائے ترقی علوم و فنون کے اسی جادو کا بڑا زور شور ہے اور ان کے مدبر فرماں روا بجائے تدبیر مناسب کے ان ہی جادو پر تکیہ کئے بیٹھے رہتے ہیں۔ وقت پر ندامت اٹھاتے ہیں۔ مسلمانوں کو خدا یہود کا حال بیان کرکے متنبہ فرماتا ہے مگر وہ جادو اور بابل اور ہاروت اور ماروت کا لفظ سن کر منہ میں پانی بھر لاتے ہیں۔ افسوس یہ کتاب و سنت سے جہل کا سبب ہے جہاں علم آیا یہ جاہلانہ خیال کا فور ہوئے۔ اب بھی ہندوستان میں جاہل اور کمینہ اقوام میں اس کا بڑا رواج ہے۔ کرنے کے کیا معنی ؟ خدا تعالیٰ کے احکام اور شریعت ہمیشہ یکساں رہتے ہیں ان میں سے ایک شوشہ بھی بدل نہیں سکتا۔ پھر اگر یہ قرآن اور شریعت منجانب اللہ ہے تو احکام تورات کو کیوں منسوخ کیا اور پھر خود اس شریعت ہی میں بعض احکام کو ایک وقت قائم رکھ کر موقوف (منسوخ) کردیا، کیا خدا تعالیٰ کو پیشتر اس حکم کی قباحت کا علم نہ تھا ؟ آج کل کے پادری بھی ان یہود کے مقلد ہو کر مسلمانوں سے یہی شبہ پیش کیا کرتے ہیں چناچہ بعض نے تو اس بارے میں رسالے اور کتابیں لکھ ڈالیں۔ اس شبہ کا جواب خدا نے اشارتاً تو ما یود الدین کفروا میں دے دیا تھا کہ یہ لوگ یہ سب باتیں رشک و حسد سے کرتے ہیں کہ خدا نے ہمارے خاندان میں نبوت کو کیوں ختم کردیا اس لیے تم کو شبہات میں ڈالتے ہیں تاکہ تم اس فیض نبوت سے محروم رہو مگر اس جگہ اس شبہ کو خوب کھول کر رد کردیا کہ اگر ہم کسی حکم کو کسی مصلحت سے موقوف کرتے ہیں یا موخر کرتے ہیں تو اس میں بندوں کے لیے سراسر بہتری ہوتی ہے ہم اس سے بہتر یا اس کے مانند اور سہل العمل اور کوئی حکم دیتے ہیں۔ 1 ؎ واضح ہو کہ نسخ لغت میں ایک شے کے مٹانے پر یا نقل و تحویل پر (عند القفال) اطلاق ہوتا ہے بولتے ہیں نسخت الریح آثار القوم کہ ہوا نے لوگوں کے پائوں کے نشان مٹا دیے اور اسی طرح بولتے ہیں نسخ الکتاب الی کتاب آخر کہ ایک جگہ سے کتاب کو دوسری طرف کو نقل کیا اور اصطلاح علماء میں نسخ ایک ایسے حکم شرعی کا قائم کرنا ہے کہ جس کے بعد اس سے پیشتر کا حکم شرعی جو مؤقت تھا اٹھ جائے اول حکم کو منسوخ دوسرے کو ناسخ کہتے ہیں۔ یہود اور عیسائی نسخ کے مطلقاً منکر ہیں اور یہ انکار صرف اس لیے ہے کہ قرآن مجید کا حکم نہ ماننا پڑے اور دین اسلام پر اعتراض کی گنجائش رہے مگر ان کا یہ انکار بالکل بیجا ہے۔ (1) اس لیے کہ تورات میں بہت سے احکام ایسے ہیں کہ جن میں نسخ پایا جاتا ہے اور عیسائیوں نے ختنہ اور سبت اور دیگر احکامِ مؤکدئہ تورات کو منسوخ کردیا بلکہ بفتوائے پولوس تمام شریعت موسوی کو بالائے طاق رکھ دیا اور اس پر عمل کرنے کو موجب لعنت قرار دیا چناچہ اس کی تشریح معہ حوالہ فصل وباب مقدمہ میں ہوچکی ہے۔ اب اس سے بڑھ کر کیا نسخ ہوگی۔ (2) اس لیے کہ عقلاً بھی اس قسم کی نسخ میں کوئی قباحت یا جناب باری کی نسبت کوئی عیب نہیں کیونکہ اعتقادیات اور اخبار کی نسبت تو کوئی مسلمان بھی نسخ کا قائل نہیں۔ تورات و انجیل و دیگر کتب انبیاء کو اس بارے میں کوئی منسوخ نہیں کہتا۔ باقی رہے احکام سو ان کی بھی دو قسم ہیں ایک اصول شرائع جیسا کہ عبادت ‘ بت پرستی کی ممانعت ‘ صلہ رحمی و عدل و انصاف ظلم وتکبر اور بدخصائل کی حرمت وغیرہا سو اس قسم کے احکام میں بھی ہم نسخ کے قائل نہیں ‘ تمام شریعتوں اور کل انبیاء کے احکام ابدی ہیں۔ دوم فروعات شریعہ کہ چور کی یہ سزا اور زانی پر اس قدر تہدید اور پاکی اور ناپاکی کی طہارت اس طور پر نماز اور اس کی عبادت اس مکان میں اور اس طرف منہ کرکے وغیرہ ذلک سو اس قسم کے احکام میں نسخ واقع ہوا ہے اور ضرور ہونا چاہیے کیونکہ خدا علام الغیوب کا مقصد شریعت سے اپنے بندوں کی بھلائی اور ان کے حال پر 1 ؎ بعض مفسرین آیت ماننسخ من آیۃ او ننسہا کی یہ تفسیر کرتے ہیں کہ یہ آیت کلام سابق کا تتمہ ہے اس سے پہلی آیات میں یہود کے خصائلِ بد کی تشریح تھی جو ان کے تنزل کا باعث ہوئیں آخیر ہر مرض کا موت ہے ان کا اقبال ان کی آیندہ ترقی سب کا خاتمہ ہوا ایک نئی قوم اور نئے ملک میں ایک خاتم الانبیاء پیدا ہوا جس پر یہود کو رشک و حسد ہونا ایک معمولی بات تھی جس کا جواب دیا گیا۔ خدا کی نعمت کسی قوم کے لیے مخصوص نہیں۔ اس پر خیال پیدا ہوتا تھا کہ خدا تعالیٰ ایک قوم کو رفعت میں آسمان تک پہنچا کر پھر جلد یا دیر میں کیوں ذلت و ادبار کے عمیق گڑھے میں پھینک دیا کرتا ہے۔ اس خیال کا دفعیہ اس آیت ما ننسخ میں کردیا گیا لفظ آیت سے قرآن مراد نہیں نہ اس کا کوئی محل وقوع ہے نہ سیاق نہ سباق مقتضی ہے۔ جب آیت قرآن مراد نہیں بلکہ آیات قدرت ‘ قوموں کی بلندی و پستی ‘ کسی کا طلوع کسی کا غروب تو نسخ سے مراد بھی نسخ اصطلاحی نہیں بلکہ یہ معنی کہ اگر عالم میں ہم کوئی اپنا آثار قدرت (جیسا کہ کسی رفیع قوم کی پستی) مٹا ڈالتے یا اس کو نسیاً منسیًا کردیتے ہیں کہ صفحہ ہستی پر اس کا کوئی نشان بھی باقی نہیں چھوڑتے تو ایسی ہی یا اس سے بہتر کوئی اور آیت قدرت ظاہر کردیتے ہیں۔ مخاطب کیا تو نہیں جانتا کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہمارے لیے ہے اور ہم ہر چیز پر قادر ہیں۔ بنی اسرائیل کو مٹایا جو اس کی ایک بڑی آیت قدرت تھی تو اس سے بڑھ کر قوم عرب کو جو ایک بڑی آیت قدرت ہے ظاہر کردیا جن میں صدہا ملوک اور لاکھوں حکیم پیدا ہوئے۔ رحمت ہے اور یہ ظاہر ہے کہ زمانہ اوراقوام اور بلاد کا ہمیشہ ایک طور نہیں رہتا۔ وقتاً فوقتاً مصلحتوں میں انقلاب ہوتا رہتا ہے۔ مثلاً جب قوم شراب کی عادی ہو تو اس کی رسم مٹانے کے لیے نہ تنہا شراب کو حرام کیا جاوے بلکہ اس کی دواعی اور یاد دلانے والی باتوں کو منع کردیا جاوے اور شراب کے برتنوں کا مطلقاً استعمال ہی ناجائز کردیا جائے پھر جب ان کی عادت جاتی رہے تو ان برتنوں کے استعمال کی اجازت دے کر اب ان پر سہولت کر دینی ضروری ہے۔ اب اس میں خدا کے علم میں کیا قصور لازم آتا ہے۔ اس پر بھی اعتراض کرنا اور پھر مواقع استدلال میں اول قسم کے احکام کو پیش کرنا یا اعتقادیات کو لانا انصاف کی گردن پر چھری پھیرنا ہے۔ معاذ اللہ من ذلک۔ اب رہا نسخ قرآنی کہ آیا اس کی آیات میں نسخ تلاوت یا نسخ حکم یا دونوں کا نسخ خواہ دوسری آیت یا کسی حدیث سے واقع ہوا ہے یا نہیں۔ ابو مسلم بن بحر وغیرہ اس کا مطلقاً انکار کرتے ہیں اور اکثر علماء اس کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں کہ بعض آیات کا آنحضرت ﷺ کے عہد میں صرف حکم منسوخ ہوا۔ جیسا و الذین یتوفون منکم ویذرون ازواجاً ۔ اس آیات میں سال بھر کی عدت وفات تھی پھر چار مہینے دس روز رہ گئی وغیرہا من الایات اس کو منسوخ الحکم کہتے ہیں اور بعض ایسی ہیں کہ جن کے الفاظ منسوخ التلاوۃ اور حکم باقی ہے جیسا کہ الشیخ و الشیخہ اذا زنیا فار جموھما نکالامن اللہ واللّٰہ عزیر حکیم وغیرہ ذلک۔ یہ تنسیخ میں داخل ہیں اور بعض آیات ایسی بھی تھیں کہ جو حضرت ﷺ اور تمام صحابہ کے دل سے بھلا دی گئیں۔ چناچہ بیہقی اور ابودائود نے روایت کی ہے کہ ایک صحابی شب کو تہجد پڑھنے کھڑے ہوئے اور ایک سورة کو پڑھنا چاہا ہرچند یاد کیا مگر ایک حرف بھی یاد نہ رہا صبح کو خود حضرت ﷺ سے اور دیگر اشخاص سے بیان کیا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سورة منسوخ التلاوۃ ہوگئی ہے سب کے دلوں سے بھلا دی گئی اور اس کے نقوش بھی مٹا دیے گئے اور اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ یہ آیت عشر رضعات معلومات یحر من قرآن میں پڑھی جاتی تھی مگر اس کا ما قبل اور مابعد اور اس کا محل بالکل نسیاً منسیاً کردیا اور اسی طرح کی بہت سی روایات ہیں یہ سب ننسھا کا مصداق ہیں مگر اس سے قرآن میں کوئی تحریف و تغیر نہیں ہوسکتا۔ کیوں یہ سب باتیں مصلحت الہٰیہ سے آنحضرت ﷺ کے عہد میں ہوچکی تھیں۔ آپ کے بعد پھر ایک حرف کی کمی زیادتی ظہور میں نہ آئی اور دلیل اس مذہب جمہور پر آیت ماننسخ الآیہ و دیگر آیات ہیں۔ ابو مسلم کہتے ہیں کہ نہ احکام میں نسخ ہوا ہے کس لیے کہ جس کو تم منسوخ کہتے ہو وہ اور جہت سے تھا اور جو ناسخ ہے اور جہت سے ہے اور نسخ میں اتحاد جہت شرط ہے اور نہ تلاوت آیات میں جن آیات کو تم منسوخ التلاوۃ کہتے ہو یہ دراصل قرآن مجید کی آیات نہ تھیں کیونکہ قرآن منقول بنقل متواتر ہے اور یہ روایات خبر احاد ہیں اور بعض تو موضوع یا ضعیف اور وجہ اشتباہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے تفسیر کے طور پر یہ جملہ کہ جن کو لوگ منسوخ التلاوہ سمجھ گئے ہیں اثنائِتلاوت میں پڑھے اور حاضرین نے ان کو آیت سمجھ لیا مقدس سمجھ کر اپنے مصاحف میں لکھ لیا مگر جب آنحضرت ﷺ نے تمام قرآن شریف حفاظ کو یاد کرایا اور متفرق اجزاء میں کاتبوں سے لکھوایا اور راویوں نے ان جملوں کو قرآن میں نہ پایا تو منسوخ التلاوہ سمجھ لیا اور اس آیت سے استدلال صحیح نہیں کس لیے کہ اس سے مراد توریت و انجیل کے احکام ہیں اور لفظ آیت کچھ آیات قرآنیہ کے لیے بھی مخصوص نہیں بلکہ احکام پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ اسی طرح اور آیات سے بھی استدلال صحیح نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
Top