Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 103
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَمَثُوْبَةٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ خَیْرٌ١ؕ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ۠ ۧ
وَلَوْ
: اور اگر
اَنَّهُمْ
: وہ
اٰمَنُوْا
: ایمان لاتے
وَاتَّقَوْا
: اور پرہیزگار بنتے
لَمَثُوْبَةٌ
: تو ٹھکانہ پاتے
مِنْ
: سے
عِنْدِ اللہِ
: اللہ کے پاس
خَيْرٌ
: بہتر
لَوْ کَانُوْا يَعْلَمُوْنَ
: کاش وہ جانتے ہوتے
کاش انہیں خبر ہوتی ۔ اگر وہ ایمان اور تقویٰ اختیار کرتے تو اللہ کے ہاں اس کا وہ بدلہ ملتا جوان کے لئے زیادہ بہتر تھا ۔ کاش انہیں خبر ہوتی۔ “
وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ خَيْرٌ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (103) ” اگر وہ ایمان اور تقویٰ اختیار کرتے تو اللہ کے ہاں اس کا جو بدلہ ملتا ، وہ ان کے لئے زیادہ بہتر تھا ، کاش انہیں خبر ہوتی ! “ یہ بات تو ان لوگوں پر بھی صادق آتی ہے جو بابل میں ہاروت وماروت سے جادو سیکھتے تھے ، ان پر بھی صادق آتی ہے جو ان باتوں کی پیروی کرتے تھے جنہیں شیاطین حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی سلطنت کا نام لے کر پیش کرتے تھے اور یہ لوگ یہودی تھے جنہوں نے اللہ کی کتاب کو تو پس پشت ڈال دیا اور ان خرافات اور مذمومات کی پابندی اپنے اوپر لازم کردی۔ یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس جادو کی حقیقت پر بھی قدرے روشنی ڈال دی جائے جس کے پیچھے یہ یہودی پڑگئے تھے اور جس کے ذریعے یہ لوگ میاں اور بیوی میں ناچاقی پیدا کرتے تھے اور اس کی وجہ سے انہوں نے کتاب الٰہی تک کو پس پشت ڈال دیا تھا۔ یہ بات ہمارے دور میں بھی بارہا مشاہدے میں آتی رہتی ہے کہ بعض لوگ اپنے اندر ایسی معجزانہ خصائص رکھتے ہیں کہ سائنس آج تک ان کی کوئی علمی توجیہ نہیں کرسکتی ۔ ایسے عجائبات کے لئے لوگوں نے ، مختلف نام تو تجویز کر رکھے ہیں ، تاہم ان کی حقیقت کا تعین ابھی تک نہیں کیا جاسکا۔ اور ابھی تک وہ عجوبہ ہی ہیں ۔ مثلاً ٹیلی پیتھی یعنی دور سے خیالات کا اخذ کرنا ، اس کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک آدمی ایک ایسے فاصلے سے ، جہاں تک نہ اس کی نظر پہنچتی ہے اور نہ آواز ، ایک آدمی کو بلاتا ہے اور اس سے خیالات اخذ کرتا ہے اور ان دونوں کے درمیان طویل فاصلے حائل نہیں ہوتے ۔ پھر مقناطیسی تنویم کا عمل بھی قابل غور ہے ۔ یہ کیوں کر ممکن ہوجاتا ہے۔ ایک ارادہ دوسرے پر ناقابل ادراک طریقے سے استیلاء حاصل کرلیتا ہے اور ایک فکردوسری فکر کے ساتھ کس طرح مطابقت اختیار کرلیتی ہے کہ ایک دوسرے کی طرف خیالات منتقل کرتی چلی جاتی ہے اور دوسری اس سے اخذ کرتی چلی جاتی ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا متاثرہ شخص ایک کھلی کتاب پڑھ رہا ہے۔ آج تک سائنس اس سلسلے میں جو کچھ کرسکی ہے وہ صرف یہ ہے کہ اس نے ان حقائق کا اعتراف کرکے ان کے لئے کچھ نام تجویز کرلئے ہیں لیکن سائنس آج تک اس بات کا جواب نہیں سے سکی کہ ان کی حقیقت کیا ہے ؟ نیز سائنس کے پاس اس کا جواب نہیں ہے کہ یہ عمل کیسے مکمل ہوتا ہے ؟ ان حقائق کے علاوہ بھی بعض ایسی چیزیں ہیں جن کے تسلیم کرنے میں سائنس کو ابھی تامل ہے ۔ یا تو اس لئے کہ ابھی تک ان کے بارے میں اس قدر مشاہدات جمع نہیں ہوئے جن کے ذریعے وہ اس میدان میں کوئی تجربہ کرسکے ۔ خود سچے خوابوں کو معاملہ بھی بڑا عجیب ہے ۔ فرائڈ جو ہر روحانی قوت کا بڑی شدت سے انکار کرتا ہے ، وہ بھی ان کا انکار نہیں کرسکا ۔ خواب کے ذریعے ہمیں مستقبل کی تاریکیوں میں ہونے والے واقعات کا اشارہ کیسے مل جاتا ہے ؟ اور پھر طویل عرصہ نہیں گزرتا کہ وہ اشارہ واقعات کی صورت اختیار کرلیتا ہے ۔ یہی معاملہ انسان کے ان خفیہ احساسات کا ہے ، جن کا ابھی تک وہ کوئی نام بھی تجویز نہیں کرسکا ۔ بعض اوقات انسان یہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے ؟ کوئی آنے والا ہے ؟ اور اس کے بعد یہ متوقع امر کسی نہ کسی صورت میں وقوع پذیر ہوجاتا ہے۔ لہٰذا یہ محض ہٹ دھرمی ہے کہ انسان محض بےتکلفی میں ان نامعلوم حقائق کا انکار کردے ، صرف اس لئے کہ سائنس کی رسائی ابھی ایسے وسائل تک نہیں ہوسکی جن کے ذریعے وہ اس میدان میں کوئی تجربہ کرسکے ۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ انسان دنیا کے تمام خرافات کو بےچون وچرامانتا چلاجائے ، ہر فسانے پر ایمان لاتا چلا جائے ، بلکہ صحیح اور معتدل روش یہ ہے کہ ایسے نامعلوم حقائق کے بارے میں انسان ایک لچک دار اور معتدل موقف اختیار کرے ۔ نہ سو فیصدی ان کا انکار کرنا درست ہے اور نہ ہی بےچون وچرا تسلیم کرلینا معقول ہے ۔ اس درمیانی روش کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان کے علم ، ادراک کے جو ابتدائی ذرائع اس وقت حاصل ہیں جب ان میں انسان مزید ترقی کرے گا تو اس کے لئے ایسے حقائق کا معلوم کرلینا ممکن ہوجائے گا ۔ لہٰذا انسان کو یہ تسلیم کرلینا چاہئے کہ اس کا علم محدود ہے ۔ اور بعض حقائق ایسے بھی ہیں جو اس کے حیطہ ادراک سے باہر ہیں ، اسے اپنی حدود کو پہچاننا چاہئے اور نامعلوم حقائق کا بھی کچھ لحاظ رکھنا چاہئے۔ جادوگری کی نوعیت بھی کچھ ایسی ہی ہے ۔ شیاطین کی جانب سے جو القاء بدکردار لوگوں کو ہوتا ہے ، وہ بھی فوق الادراک امور میں سے ہے۔ اس کی متعدد شکلوں میں سے ایک یہ ہے کہ جادوگر انسانوں کے حواس اور خیالات پر اثر انداز ہونے کی قدرت رکھتا ہے ۔ کبھی اس کا اثر ٹھوس چیزوں اور اجسام پر بھی ہوتا ہے ۔ البتہ قرآن کریم میں فرعون کے جادوگروں کی جس سحرکاری کا ذکر ہے ، وہ محض نظربندی اور نظر فریبی ہی تھی ، دراصل اس سے کسی چیز کی حقیقت میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوتی تھی۔ یُخَیَّلُ اِلَیہِ مِن سَحرِھِم اِنَّھَا تَسعٰی ” ان کی جادوگری کی وجہ سے ، اس کو ایسامعلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ چل رہی ہیں ۔ “ ہوسکتا ہے کہ وہ لوگ اپنی جادوگری کے ایسے اثرات استعمال کرکے میاں بیوی اور دوست اور دوست کے تفریق ڈالتے ہوں ، کیونکہ جب انسان کسی چیز سے متاثر ہوتا ہے ، اس انفعال کی مطابقت میں اس سے بعض حرکات سرزد ہوجاتی ہیں ، لیکن جیسا کہ کہا گیا وسائل واسباب اور ان کے تنائج اور مسببات کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے سوا کام نہیں کرسکتا ۔ قدرتی طور پر یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ دوفرشتے ہاروت وماروت کون تھے ؟ اور تاریخ کے کس دور میں وہ بابل میں گزرے ہیں ؟ اس سوال کی تشریح قرآن نے اس ضروری نہیں سمجھی کہ ان فرشتوں کا قصہ یہودیوں کے درمیان عام طور پر معروف تھا ، اور جب قرآن کریم نے انہیں یہ قصہ سنایا تو انہوں نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ کئی ایسے واقعات جو اس وقت قرآن کریم کے مخاطبین کے ہاں مشہور ومعروف تھے ۔ انہیں قرآن کریم نے اجمال کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ کیونکہ قرآن کریم کا مقصد صرف اشارے ہی سے پورا ہوجاتا تھا اور قصہ گوئی قرآن کے پیش نظر تھی ہی نہیں ۔ فی ظلال القرآن میں ، ہم وہ تمام تفصیلات اور رطب ویابس روایات درج نہیں کرنا چاہتے جو ان فرشتوں کے بارے میں مشہور ہیں ۔ کیونکہ تفاسیر میں ان کے بارے میں مواد پایا جاتا ہے ، یا جو روایات معقول ہیں ان میں کوئی روایت ثقہ نہیں ہے۔ انسانیت اپنی طویل ترین تاریخ میں متعدد آزمائشوں اور ابتلاؤں سے دوچارہوتی رہی ہے۔ یہ آزمائشیں اور ابتلائیں ، مختلف ادوار میں انسانیت کی ذہنی سطح اور اس وقت کے ماحول کی مناسبت سے مختلف نوعیت اختیار کرتی رہی ہیں ۔ اب یہ آزمائش اگر کسی وقت دو فرشتوں کی صورت میں یا دو فرشتہ سیرت انسانوں کی صورت میں آئی ہے تو یہ کوئی تعجب انگیز اور انوکھی بات نہیں ہے۔ کیونکہ انسانیت پر جو آزمائشیں آتی رہی ہیں وہ کئی قسم کی عجیب و غریب اور خارق العادۃ بھی ہوتی رہی ہیں ، بالخصوص اس دور میں جبکہ انسانیت فکر وادراک کی دنیا میں ترقی کی ابتدائی منازل طے کررہی تھی اور وہم وجہالت کی تاریک رات میں سماوی روشنی کے پیچھے چل رہی تھی۔ نیز ان آیات میں جو محکم اور واضح ہدایات دی گئی ہیں ہمارے لئے وہی کافی ہیں ۔ اور اگر کوئی چیز متشابہ اور ناقابل فہم ہے تو اس کے پیچھے پڑنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ بالخصوص اب جبکہ ہم اس ماحول سے بہت دور جانکلے ہیں ۔ جہاں ایسے واقعات پیش آئے تھے ۔ بس ہمارے لئے یہی جان لینا کافی ہے کہ بنی اسرائیل جادوگری اور دوسری موہوم اور لایعنی باتوں کے پیچھے پڑ کر گمراہ ہوگئے تھے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی سچی اور یقینی ہدایات کو پس پشت ڈال دیا تھا اور یہ کہ عمل سحر ایک کفریہ عمل ہے ۔ اور جو لوگ ایسے اعمال کریں ان کے لئے دار آخرت میں کوئی حصہ نہ ہوگا ۔ اور وہ ان تمام بھلائیوں اور خیرات سے محروم ہوجائیں گے جو ان کے لئے وہاں اللہ تعالیٰ کی جانب سے تیار کی گئی ہیں۔ درس 6 ایک نظر میں اس سبق میں یہودی سازشوں اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان ریشہ دوانیوں کو مزید کھولا جاتا ہے ۔ اسلامی جماعت کو ان کی چالوں اور حیلوں سے خبردار کیا جاتا ہے جو یہودی اسلام کے خلاف استعمال کرتے تھے ۔ نیز بتایا جاتا ہے کہ ان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف کس قدر بغض وحسد پایا جاتا ہے اور وہ امت مسلمہ کو نقصان پہنچانے اور ان کے خلاف سازشیں تیار کرنے میں کس طرح رات دن مصروف عمل ہیں ۔ اس لئے مسلمانوں کو اپنی بول چال اور اپنے طرز عمل میں ان دشمنان اسلام ، کفار اہل کتاب کے ساتھ ہر قسم کا تشبہ کرنے سے روکا جاتا ہے ۔ مسلمانوں کو یہودیوں کے اقوال اور افعال اور پالیسیوں کے حقیقی اسباب بتائے جاتے ہیں ۔ مسلمانوں کے اتحاد ویکجہتی کے خلاف وہ جو سازشیں ، جو فتنہ انگیزیاں اور جو فریب کاریاں کررہے تھے ، انہیں واضح طور پر بیان کیا جاتا ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں نے اسلامی معاشرے کی تشکیل جدید اور نئے حالات اور تقاضوں کے مطابق بعض شرعی احکامات اور تکالیف میں رد وبدل اور نسخ جیسے مسائل کی آڑ لے کر مکروہ پروپیگنڈے کا طوفان برپا کیا تھا ۔ انہوں نے جو گہری سازشیں مرتب کی تھی اس کے ذریعے وہ ان احکامات اور تکالیف کے منبع یعنی ذات باری تعالیٰ اور اس کی جانب سے وحی الٰہی کے نزول کی بابت مسلمانوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے چاہتے تھے ۔ وہ مسلمانوں سے کہتے تھے ” اگر یہ وحی منجانب اللہ ہوتی تو سابقہ احکامات میں ردوبدل اور انہیں منسوخ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ “ یہودی پہلے بھی ایسے پروپیگنڈے کرتے رہتے تھے لیکن جب ہجرت نبوی ﷺ کے 16 مہینے بعد تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا تو ان لوگوں نے اسلام کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک عظیم طوفان برپا کردیا ۔ ہجرت کے بعد ایک عرصے تک نبی ﷺ ، یہودیوں کے قبلہ ” بیت المقدس “ ہی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے اور اس امر سے یہودی یہ استدلال کرتے تھے کہ بس قبلہ حق اور دین حق تو انہی کا دین اور قبلہ ہیں لہٰذا نبی کریم ﷺ کی دلی خواہش یہ تھی کہ مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس سے تبدیل ہوکر ، بیت الحرام ہوجائے ۔ البتہ نبی ﷺ نے کبھی اس کا اظہار نہ کیا تھا لیکن اس پورے عرصے میں یہ خواہش بدستور آپ کے دل میں موجود رہی اور اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کی اس خواہش کے مطابق آپ ﷺ کے پسندیدہ قبلہ ہی کو مسلمانوں کا قبلہ بنادیا جیسا کہ آئندہ صفحات میں تفصیلات مذکور ہیں ۔ بنی اسرائیل چونکہ اس بات کو اچھی طرح محسوس کررہے تھے کہ تحویل قبلہ کے نتیجہ میں اسلام کے مقابلے میں ان کے دین کی ایک ظاہری برتری بھی ختم ہوجائے گی ۔ اور آئندہ اسے اپنے دین کی برتری کے لئے دلیل کے طور پر استعمال نہ کرسکیں گے لہٰذا اس مرحلے پر انہوں نے اسلامی صفوں انتشار پھیلانے اور وحی الٰہی کے من جانب اللہ کے نزول کے بارے میں اہل ایمان کے عقائد کے اندرشکوک و شبہات پیدا کرنے کی خاطر زبردست پروپیگنڈہ شروع کردیا ۔ ان کی یہ سازش اس قدر گہری تھی کہ اس میں انہوں نے مسلمانوں کے بنیادی عقیدے اور قرآن کے من جانب اللہ ہونے پر کلہاڑا چلانے کی کوشش کی تھی۔ وہ مسلمانوں سے جو کچھ کہتے تھے اس کا خلاصہ یہ تھا ” اگر بیت المقدس کی طرف چہرہ کرکے نماز پڑھنا باطل اور خلاف حق تھا تو 16 ماہ تک تمہاری تمام نمازیں ضائع ہوگئیں۔ اور اگر یہ فعل برحق تھا تو پھر تبدیلی کیوں ہوئی ؟ مقصد یہ تھا کہ اب تک انہوں نے جو نمازیں ادا کیں اس کا انہیں کوئی ثواب نہ ملے گا اور یہ کہ حضرت نبی کریم ﷺ کی قیادت کوئی حکیمانہ قیادت نہیں ہے ۔ (نعوذ باللہ) “ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بعض مسلمانوں پر اس پروپیگنڈے کے برے اثرات پڑنے لگے تھے ۔ اس لئے وہ نہایت قلق اور بےچینی سے اس کے متعلق نبی کریم ﷺ سے سوالات بھی کرنے لگے تھے ۔ کیونکہ یہ واقعہ اس غیر معمولی تھا اور دلوں میں اس قدر خلش پیدا ہوگئی کہ اس کے ہوتے ہوئے اسلامی قیادت پر اطمینان کی فضاقائم نہیں رہ سکتی تھی ۔ نہ اسلامی عقائد کے منبع و ماخذ پر مکمل اعتماد رہ سکتا تھا۔ اس لئے مسلمان بھی اس کی حکمت اور اس کے بارے میں اطمینان بخش دلائل پوچھنے لگے تھے ۔ یہ تھی وہ فضا جس میں قرآن کریم کی یہ آیات نازل ہوئیں ۔ ان میں بتایا گیا کہ احکامات میں نسخ ایک گہری حکمت پر مبنی ہوتی ہے۔ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے لئے زیادہ بہتر احکامات نازل فرماتے ہیں ۔ ایسے احکامات جو نئے حالات میں مسلمانوں کے لئے زیاہ مفید ہیں ۔ کیونکہ اللہ ہی جانتا ہے کہ کن حالات میں کیا حکم بہتر ہے ۔ ساتھ ہی مسلمانوں کو اس امر سے بھی خبردار کردیا جاتا ہے کہ یہودیوں کا اصل مقصد اور کوشش صرف یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو ایمان لانے کے بعد دوبارہ کافر بناکر چھوڑدیں کیونکہ ان کو یہ حسد کھائے جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وحی الٰہی جیسا فضل وکرم اور اعزازِ عظیم مسلمانوں کو کیوں بخشا ؟ کیونکہ اللہ نے اپنی آخری کتاب مسلمانوں پر نازل کردی ہے اور ان کے مقابلے میں یہ عظیم ذمہ داری کیوں ان کے سپرد کردی ہے ۔ قرآن کریم یہاں اس بات کو کھول کر بیان کرتا ہے کہ یہودیوں کی ان تما فتنہ سامانیوں کے پیچھے کون سا خفیہ مقصد کام کررہا ہے ۔ اس موقع پر قرآن کریم ان کے اس جھوٹے دعویٰ کا بھی مضحکہ اڑاتا ہے کہ جنت تو صرف ان کے لئے مخصوص ہے ۔ قرآن کریم ان کی آپس کی الزام تراشیوں کو بھی نقل کردیتا ہے کہ یہودی کہتے ہیں ” نصرانیوں کے دین کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ “ اور نصرانی کہتے ہیں ” یہودیوں کے دین کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ “ اور مشرکین آگے بڑھ کر یہ دعویٰ کرتے ہیں ” دونوں باطل پر ہیں۔ “ قرآن کریم تحویل قبلہ کے معاملے میں ان کی بدنیتی اور خفیہ سازشوں کے راز کو یوں کھولتا ہے کہ بیت اللہ توروئے زمین پر اللہ کی پہلی عبادت گاہ ہے اور اس کی طرف چہرہ کرکے نماز پڑھنے سے لوگوں کو روک کر یہودی اللہ کی مساجد اور عبادت گاہوں کو خراب کرنے کے لئے ایسے جرم کے مرتکب ہورہے ہیں جو خود ان کے نزدیک بھی بہت بڑا جرم ہے ۔ غرض اس پورے سبق میں یہی مضمون آکر تک بیان کیا گیا ہے اور آخر میں مسلمانوں کے سامنے یہودیوں اور نصرانیوں کے اس مقصد کو واضح طور پر رکھ دیا گیا ہے ۔ جوان تمام کاروائیوں سے ان کے پیش نظر ہوتا ہے ۔ یعنی مسلمانوں کو اپنے اس دین حق سے پھیر کر اپنے دین پر لے آنا ۔ قرآن کہتا ہے کہ اہل کتاب نبی ﷺ سے اس وقت تک راضی نہیں ہوسکتے جب تک آپ ان کی ملت کے پیرو نہ بن جائیں ۔ جب تک آپ ان کی یہ آرزو پوری نہ کریں گے ، مکر و فریب اور جھوٹے پروپیگنڈے کی اس جنگ کو آخری وقت تک جاری رکھیں گے ۔ ان کی تمام فتنہ انگیزیوں ، فریب کاریوں اور ان کی جانب سے پیش کئے جانے والے تمام کھوکھلے دلائل کے پس پشت بس یہی ایک مقصد کارفرما ہے۔
Top