Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 103
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَمَثُوْبَةٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ خَیْرٌ١ؕ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّهُمْ : وہ اٰمَنُوْا : ایمان لاتے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگار بنتے لَمَثُوْبَةٌ : تو ٹھکانہ پاتے مِنْ : سے عِنْدِ اللہِ : اللہ کے پاس خَيْرٌ : بہتر لَوْ کَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : کاش وہ جانتے ہوتے
اور اگر یہ لوگ (سچے دل سے) ایمان لے آتے، اور تقوی (و پرہیزگاری) کا طریقہ اپناتے، تو یقینا اللہ (تعالیٰ ) کے یہاں سے ملنے والا اجر (وثواب خود انکے لئے) کہیں بہتر ہوتا، کاش کہ یہ لوگ جان لیتے،5
289 علم بلا عمل نہ ہونے کے برابر۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا اور حسرت و افسوس کے اسلوب و انداز میں ارشاد فرمایا گیا کہ " کاش کہ یہ لوگ جان لیتے "۔ یعنی یہ بات جان لیتے کہ کامیابی اور نجات کا مدارو انحصار صرف ایمان وتقوی پر ہے، جس کے حاصل کرنے کا موقع و مقام یہی دنیاوی زندگی ہے تو یہ لوگ ایسا نہ کرتے۔ پس اس فرصت محدود و مختصر کے ختم ہونے سے پہلے یہ لوگ آخرت کے لیے کوشش اور کمائی کرلیتے۔ سو اگر ان لوگوں کو یہ حقیقت معلوم ہوجاتی تو یہ ایسے لایعنی کاموں میں نہ لگتے اور متاع وقت کو ان میں ضائع کرنے کی بجائے اپنی توجہ ایمان وتقویٰ کی تحصیل پر مرکوز رکھتے، مگر حق اور حقیقت کے علم سے محروم ہونے کے باعث یہ لوگ ایمان وتقوی کی اس راہ کو نہ اپنا سکے جو انسان کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کرتی ہے۔ اور اس طرح یہ محرومی اور خسارے کی راہ پر چل پڑے۔ یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر اور لائق توجہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں پہلے تو فرمایا گیا کہ ان لوگوں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ جس کسی نے جادو گری کے اس کاروبار کو اپنایا اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور یقینا بڑا ہی برا ہے وہ کچھ جس کے بدلے میں انہوں نے بیچا اپنی جانوں کو اور پھر آیت کریمہ کے خاتمے پر ارشاد فرمایا گیا کہ کاش یہ لوگ جان لیتے۔ سو اس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ جس علم کے مطابق عمل نہ ہو وہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ والعیاذ باللہ -
Top