Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 194
اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ عِبَادٌ اَمْثَالُكُمْ فَادْعُوْهُمْ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ جنہیں تَدْعُوْنَ : تم پکارتے ہو مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : سوائے اللہ عِبَادٌ : بندے اَمْثَالُكُمْ : تمہارے جیسے فَادْعُوْهُمْ : پس پکارو انہیں فَلْيَسْتَجِيْبُوْا : پھر چاہیے کہ وہ جواب دیں لَكُمْ : تمہیں اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
جن کو تم پکارتے ہو اللہ کے سوا وہ بندے ہیں تم جیسے بھلا پکارو تو ان کو پس چاہئے کہ وہ قبول کریں تمہارے پکارنے کو اگر تم سچے ہو،
خلاصہ تفسیر
(غرض) واقعی تم خدا کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو وہ بھی تم ہی سے (اللہ کے مخلوق) بندے ہیں (یعنی تم سے بڑھ کر نہیں خواہ گھٹے ہوئے ہوں) سو (ہم تو تم کو سچا جب جانیں کہ) تم (تو) ان کو پکارو (اور) پھر ان کو چاہئے کہ تمہارا کہنا کردیں، اگر تم (ان کے اعتقاد الوہیت میں) سچے ہو (اور وہ بیچارے تمہارا کہنا تو کیا کریں گے، کہنا ماننے کے آلات تک ان کو نصیب نہیں، دیکھ لو) کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے وہ چلتے ہوں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے کسی چیز کو تھام سکیں یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہوں یا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہوں (جب ان میں قوٰی فاعلہ تک نہیں تو کوئی فعل ان سے کیا صادر ہوگا اور) آپ (یہ بھی) کہہ دیجئے کہ (جس طرح وہ اپنے معتقدین کو نفع پہنچانے سے عاجز ہیں اسی طرح اپنے مخالفین کو ضرر بھی نہیں پہنچا سکتے، جیسا تم کہا کرتے ہو کہ ہمارے بتوں کی بےادبی نہ کیا کرو ورنہ وہ تم پر کوئی آفت نازل کردیں گے۔ اخرجہ فی اللباب عن عبد الرزاق فی قولہ تعالیٰ (آیت) وَيُخَوِّفُوْنَكَ بالَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖ ، اور اگر تم سمجھتے ہو کہ وہ مجھ کو ضرر پہنچا سکتے ہیں تو) تم (اپنا ارمان نکال لو اور) اپنے سب شرکاء کو بلا لو پھر (سب مل کر) میری ضرر رسانی کی تدبیر کرو پھر (جب تدبیر بن جائے تو) مجھ کو ذرا مہلت مت دو (بلکہ فورا اس کو نافذ کردو، دیکھوں کیا ہوتا ہے اور خاک بھی نہیں ہوگا کیونکہ شرکاء تو مہمل محض ہیں، رہ گئے تم جو کچھ ہاتھ پاؤں ہلا سکتے ہو تو تم میرا اس لئے کچھ نہیں کرسکتے کہ) یقینا میرا مددگار اللہ تعالیٰ ہے جس (کے مددگار اور رفیق ہونے کا کھلا ثبوت یہ ہے کہ اس) نے (مجھ پر) یہ کتاب (مبارک جامع خیر دارین) نازل فرمائی (اور اگر میرا رفیق و معین نہ ہوتا تو اتنی بڑی نعمت کیوں عطا فرماتا) اور (علاوہ اس دلیل خاص کے ایک عام قاعدہ سے بھی اس کا مددگار ہونا معلوم ہے وہ قاعدہ یہ ہے کہ) وہ (عموما) نیک بندوں کی مدد کیا کرتا ہے (تو انبیاء تو ان نیک بندوں میں فرد کامل ہیں اور میں نبی ہوں تو میرا بھی ضرور مددگار ہوگا، غرض یہ کہ جن کے ضرر سے ڈراتے ہو وہ عاجز اور جو مجھ کو ضرر سے بچاتا ہے وہ قادر، پھر اندیشہ کا ہے کا) اور (گو ان کا عاجز ہونا اوپر بابلغ وجوہ بیان ہوچکا ہے لیکن چونکہ وہاں بیان عجز مقصود بالغیر تھا اور مقصود بالذات نفی استحقاق معبودیت تھی اس لئے آگے مقصود بیان عجز کا فرماتے ہیں کہ) تم جن لوگوں کی خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو وہ (تمہارے دشمن کے مقابلہ میں جیسا میں ہوں) تمہاری کچھ مدد نہیں کرسکتے اور نہ (اپنے دشمن کے مقابلہ میں جیسا میں ہوں) اپنی مدد کرسکتے ہیں اور (مدد کرنا تو بڑی بات ہے) ان کو (تو) اگر کوئی بات بتلانے کو پکارو تو اس کو (بھی تو) نہ سنیں (اس کے بھی وہی مذکورہ بالا دونوں معنی ہو سکتے ہیں) اور (جیسے ان کے پاس سننے کا آلہ نہیں اسی طرح دیکھنے کا آلہ بھی نہیں اور ان کی تصویر میں جو آنکھیں بنادی جاتی ہیں وہ محض نام ہی کی ہوتی ہیں کام کی نہیں چنانچہ) ان (بتوں) کو آپ دیکھتے ہیں کہ گویا وہ آپ کو دیکھ رہے ہیں (کیونکہ شکل تو آنکھوں کی سی بنی ہوئی ہے) اور وہ (واقع میں) کچھ بھی نہیں دیکھتے (کیونکہ حقیقت میں تو وہ آنکھیں نہیں اسی پر دوسرے قوٰی فاعلہ ایدی و ارجل کی نفی سمجھ لینا چاہئے، پس ایسے عاجز کا کیا ڈراوا دکھلاتے ہو)
Top