Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 194
اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ عِبَادٌ اَمْثَالُكُمْ فَادْعُوْهُمْ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ جنہیں تَدْعُوْنَ : تم پکارتے ہو مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : سوائے اللہ عِبَادٌ : بندے اَمْثَالُكُمْ : تمہارے جیسے فَادْعُوْهُمْ : پس پکارو انہیں فَلْيَسْتَجِيْبُوْا : پھر چاہیے کہ وہ جواب دیں لَكُمْ : تمہیں اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
(مشرکو) جن کو تم خدا کے سوا پکارتے ہو تمہاری طرح کے بندے ہی ہیں (اچھا) تم ان کو پکارو اگر سچے ہو تو چاہئے کہ وہ تم کو جواب بھی دیں۔
آیت نمبر : 194۔ 196 قولہ تعالیٰ : آیت : ان الذین تدعون من دون اللہ عباد امثالکم ( اللہ تعالیٰ نے) بتوں کی پوجا کے بارے میں ان سے جھگڑا کیا ہے۔ تدعون یہ تعبدون کے معنی میں ہے یعنی جن کی تم عبادت کرتے ہو۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : تم انہیں ( بتوں کو) الٰہ پکارتے ہو۔ من دون اللہ یعنی من غیر اللہ، اللہ کے سوا کو۔ اور بتوں کو عباد کہا گیا ہے، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے مملوک ہیں اور مسخر ہیں۔ حسن نے کہا ہے : اس کا معنی ہے کہ بت تمہاری طرح مخلوق ہیں جب مشرکین نے یہ اعتقاد بنا لیا کہ بت نفع اور نقصان پہنچا سکتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں لوگوں کے قائم مقام قرار دیا اور فرمایا : فادعوھم اور یہاں فادعوھن نہیں کہا ( یعنی ان کے لیے مونث ضمیر ذکر کرنے کی بجائے جمع مذکر ضمیر ذکر کی جو ذوی العقول کے لیے ذکر کی جاتی ہے) اور ان کے لیے فرمایا : عباد ( وہ بندے ہیں تمہاری طرح) اور میزید کہا : آیت : ان الذین اس کی جگہ ان التی ذکر نہیں لیا۔ اور فادعوھم کا معنی یہ ہے پس تم ان سے نفع اور نقصان کا مطالبہ کرو۔ فلیستجیبوا لکم ان کنتم صدقین ( پس چاہیے کہ وہ قبول کریں تمہاری پکار کو) اور یہ کہ بتوں کی پرستش کرو) پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں زجر وتوبیخ کی اور ان کی عقلوں کی سفاہت اور حماقت کو بیان فرمایا اور فرمایا : آیت : الھم ارجل یمشون بھا ام لھم ایدیبطشون بھا ام لھم اعین یبصرون بھا ام لھم اذان یسمعون بھا، الآیہ یعنی تم ان سے افضل ہو تو پھر تم ان کی پرستش کیونکہ کرتے ہو۔ مقصود ان کی جہالت کا بیان ہے۔ کیونکہ معبود جوارح سے متصف ہوتا ہے۔ حضرت سعید بن جبیر نے آیت : ان الذین تدعون من دون اللہ عباد امثالکم پڑھا ہے یعنی ان کو التقائے ساکنین کی وجہ سے تخفیف اور کسرہ کے ساتھ اور عباد کو نصب اور تنوین کے ساتھ اور امثالکم کو نصب کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور معنی یہ ہے ما الذین تدیون۔۔۔ الخ۔ وہ جن کی تم اللہ تعالیٰ کے سوا پوجا کرتے ہو وہ تمہاری طرح بندے نہیں ہی، یعنی وہ تو پتھر اور لکڑی ہے پس تم جن کی پوجا کرتے ہو تم خود ان سے اشرف اور اعلیٰ ہو۔ نحاس نے کہا ہے : اس قراءت کے لیے مناسب نہیں کہ اسے اس طرح پڑھا جائے اس کی تین وجوہ ہیں : ایک یہ ہے کہ یہ سواد اور جمہور کی قراءت کے خلاف ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ سیبویہ ان کی خبر پر فع مختار سمجھتے ہیں جب وہ ما کے معنی میں ہو، پس وہ کہتے ہیں : ان زید منطلق کیونکہ ما کا عمل ضعیف ہے اور ان اس کے معنی میں ہونے کے سبب اس سے بھی زیادہ ضعیف اور کمزور ہے۔ اور تیسری وجہ یہ ہے کہ کسائی نے گمان کیا ہے عرب کلام میں ان بمعنی ما آتا ہی نہیں مگر یہ کہ اس کے بعد ایجاب ہو، جیسے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : ان الکفرون الا فی غرور ( الملک) فلیستجیبوا لکم اس میں اصل تو یہ ہے کہ لام مکسور ہو، پھر ثقیل ہونے کی وجہ سے کسرہ کو حذف کردیا گیا۔ پھر کہا گیا ہے : کہ کلام میں حذف ہے، اس کا معنی ہے : فادعوھم الی ان یتبعوکم فلیستجیبوا لکم ان کنتم صادقین انھم الھۃ پس تم انہیں پکارو یہاں تک کہ وہ تمہاری اتباع کریں اور چاہیے کہ وہ تمہاری پکار کو قبول کریں اگر تم سچے ہے کہ وہ معبود ہیں۔ ابو جعفر اور شیبہ نے ام لھم اید یبطشون بھا طا کو ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور یہ بھی ایک لغت ہے۔ الفاظ الید، الرجل اور الاذن سب مونث ہیں ہا کے ساتھ ان کی تصغیر لائی جاتی ہے۔ اور الید میں تصغیر کے وقت یاء کا اضافہ کیا جاتا ہے اور اسے اپنے اصل کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے پس کہا جاتا ہے : یدیۃ یعنی دو یا جمع ہونے کی وجہ سے اسے تشدید کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ قولہ تعالیٰ : آیت : قل ادعوا شرکآء کم اس میں شرکاء سے مراد بت ہیں۔ ثم کیدون پھر تم اور وہ میرے خلاف سازش کرو۔ آیت : فلاتنظرون اور تم مجھے مہلت نہ دو ۔ اصل میں کیدونی تھا اس سے یا کو حذف کردیا گیا ہے کیونکہ کسرہ اس پر دلالت کر رہا ہے۔ اور اسی طرح فلا تنظرون کا معنی ہے۔ اور کید کا معنی مکر کرنا ہے۔ اور کید کا معنی جنگ بھی ہے۔ کہا جاتا ہے : غزافلم یلق کیدا اس میں کید جنگ کے معنی میں ہے۔ آیت : ان ولی اللہ الذی نزل الکتب یعنی وہ جو میرے مدد اور حفاظت کا والی ہے وہ اللہ ہے۔ اور ولی الشی کا معنی ہے : وہ جو اس شے کی حفاظت کرتا ہے اور اس سے ضرور اور نقصان کو روکتا ہے۔ اور الکتاب سے مراد قرآن کریم ہے۔ آیت : وھو یتولی الصلحین اور وہی نیک بندوں کی حفاظت کرتا ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا میں نے رسول اللہ ﷺ کو بلند آواز سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے : الا ان آل اب یعنی فلانا۔۔۔ لیسوالی باولیاء انما ولی اللہ و صالح المومنین ( خبردار غور سے سنو ! بیشک آل فلان میرے اولیاء ( محافظ) نہیں ہیں بلکہ میرا محافظ اور مددگار اللہ تعالیٰ اور نیک مومنین ہیں) اخفش نے کہا ہے : اسے ان ولی اللہ الذی نزل الکتاب بھی پڑھا گیا ہے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں۔ نحاس نے کہا ہے : یہ عاصم جحدری کی قراءت ہے۔ اور پہلی قراءت زیادہ بین اور واضح ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : وھو یتولی الصلحین ( اور وہ نیک بندوں کی حمایت کیا کرتا ہے)
Top