Anwar-ul-Bayan - Al-Ghaafir : 85
فَلَمْ یَكُ یَنْفَعُهُمْ اِیْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا١ؕ سُنَّتَ اللّٰهِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِهٖ١ۚ وَ خَسِرَ هُنَالِكَ الْكٰفِرُوْنَ۠   ۧ
فَلَمْ يَكُ : تو نہ ہوا يَنْفَعُهُمْ : ان کو نفع دیتا اِيْمَانُهُمْ : ان کا ایمان لَمَّا : جب رَاَوْا : انہوں نے دیکھ لیا بَاْسَنَا ۭ : ہمارا عذاب سُنَّتَ اللّٰهِ : اللہ کا دستور الَّتِيْ قَدْ خَلَتْ : وہ جو گزرچکا ہے فِيْ عِبَادِهٖ ۚ : اس کے بندوں میں وَخَسِرَ : اور گھاٹے میں رہے هُنَالِكَ : اس وقت الْكٰفِرُوْنَ : کافر (جمع)
لیکن جب وہ ہمارا عذاب دیکھ چکے (اس وقت) ان کے ایمان نے انکو کچھ فائدہ نہ دیا (یہ) خدا کی عادت (ہے) جو اسکے بندوں (کے بارے) میں چلی آتی ہے اور وہاں کافر گھاٹے میں پڑگئے
(40:85) فلم یک۔ فاء تعقیب کا ہے۔ لم یک مضارع مجزوم نفی جحد بلم۔ فلم یک ینفعھم ایمانھم پس کوئی فائدہ نہ دیا انہیں ان کے ایمان نے۔ سنت اللّٰہ۔ مضاف مضاف الیہ۔ اللہ کی سنت، دستور۔ طریقہ جاریہ عادت مستمرہ۔ سنت۔ مصدر مؤکدہ لنفسہ ہے اس سے پہلے فعل محذوف ہے ای سن اللّٰہ سنۃ۔ یہی دستور ہے اللہ تعالیٰ کا۔ اس کی مثال قرآن مجید میں ہے :۔ صبغہ اللّٰہ (ہمارے اوپر اللہ کا رنگ ہے اللہ نے ہمیں اپنے رنگ میں رنگ دیا ہے) اور مثالیں 30:6 اور 31:9 ۔ ملاحظہ ہوں۔ قد خلت : قد ماضی کے ساتھ تحقیق کے معنی دیتا ہے اور ماضی کو زمانہ حال کے قریب بنا دیتا ہے یعنی ماضی قریب کے معنی دیتا ہے۔ خلت ماضی کا صیغہ واحد مؤنث غائب۔ (اس ضمیر کا مرجع سنت ہے) خلو مصدر (باب نصر) وہ گزری۔ یہی اللہ کا دستور ہے جو اس کے بندوں میں ہوتا چلا آیا ہے۔ خسر ھنالک الکفرون۔ اس وقت کافر خسارہ میں رہ گئے۔ الکافر خاسر فی کل وقت ولکنہ تبین لہم خسر انھم اذا رؤوا العذاب کافر تو ہر وقت خسارہ میں رہتا ہے لیکن اس خسارے کا ان کے لئے ظہور اس وقت ہونا ہے جب کہ عذاب ان کی نظروں کے سامنے آجانا ہے۔
Top