Tafseer-e-Madani - Al-Ghaafir : 85
فَلَمْ یَكُ یَنْفَعُهُمْ اِیْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا١ؕ سُنَّتَ اللّٰهِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِهٖ١ۚ وَ خَسِرَ هُنَالِكَ الْكٰفِرُوْنَ۠   ۧ
فَلَمْ يَكُ : تو نہ ہوا يَنْفَعُهُمْ : ان کو نفع دیتا اِيْمَانُهُمْ : ان کا ایمان لَمَّا : جب رَاَوْا : انہوں نے دیکھ لیا بَاْسَنَا ۭ : ہمارا عذاب سُنَّتَ اللّٰهِ : اللہ کا دستور الَّتِيْ قَدْ خَلَتْ : وہ جو گزرچکا ہے فِيْ عِبَادِهٖ ۚ : اس کے بندوں میں وَخَسِرَ : اور گھاٹے میں رہے هُنَالِكَ : اس وقت الْكٰفِرُوْنَ : کافر (جمع)
مگر (اس وقت کا) ان کا یہ ایمان ایسا نہیں تھا کہ ان کو کچھ نفع دے سکے (اور فائدہ پہنچا سکے) جب کہ انہوں نے دیکھ لیا تھا ہمارے عذاب کو اللہ کے اس دستور کے مطابق جو کہ پہلے سے چلا آیا ہے اس کے بندوں میں اور اس موقع پر (دائمی) خسارے میں پڑے گئے ایسے کافر (و منکر) لوگ2
157 ایمان بالمشاہدہ کا کوئی فائدہ نہیں : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ایسے منکروں نے جب ہمارے عذاب کو دیکھ لیا تو اس وقت وہ چیخ چیخ کر کہنے لگے کہ ہم ایمان لائے اکیلے اللہ پر اور ہم نے انکار کردیا ان سب چیزوں کا جن کو ہم اس کا شریک ٹھہرایا کرتے تھے۔ مگر بےوقت کے اس عذاب سے ان کوئی فائدہ نہ پہنچ سکا۔ " کچھ فائدہ نہ دیا انکو انکے اس وقت کے ایمان نے " کہ عذاب آچکنے کے بعد نہ کسی کی توبہ و معذرت قبول کی جاتی ہے اور نہ ہی اس کے بعد کسی کو کسی طرح کی کوئی مہلت اور چھوٹ مل سکتی ہے ۔ { وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفْسًا اِذَا جَآئَ اَجَلُہَا } ۔ (المنافقون : 11) اور عذاب آجانے کے بعد کا ایمان اس لئے معتبر نہیں کہ وہ ایمان بالشہود ہوتا ہے جبکہ مطلوب ایمان بالغیب ہے۔ سو عذاب آجانے کے بعد انہوں نے ایمان تو بڑے زور و شور سے لایا اور اپنے گزشتہ تمام کفر و شرک کا انکار کیا لیکن بےوقت کے اس ایمان کا کوئی فائدہ بہرحال نہیں ہوسکا۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی سنت اس کے بندوں میں ہمیشہ سے یہی رہی کہ جب عذاب آجاتا ہے تو اس وقت ایمان لانے سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ کہ وہ ایمان بالمشاہدۃ ہوتا ہے جو کہ اصل مقصود ایمان بالغیب ہوتا ہے اور بس۔ 158 کفر و انکار کا نتیجہ وانجام دائمی خسارہ ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " دائمی خسارے میں پڑگئے اس موقع پر کافر لوگ " کہ یہ اپنے کیفر کردار کو پہنچ کر رہے اور حیات مستعار کی جو فرصت نیکی کمانے کے لئے ان کو ملی تھی اس کو انہوں نے غفلت اور سرکشی میں ضائع کردیا۔ جس کی واپسی اور تلافی وتدارک کی کوئی صورت اب ان کیلئے ممکن نہ رہی تھی۔ اور کفر و انکار کی جس راہ کو انہوں نے زندگی بھر اپنائے رکھا تھا اس نے ان کو ہمیشہ ہمیش کے لئے ہلاکت و تباہی کے ہولناک گڑھے میں ڈال دیا۔ اور جس دنیاوی مال و متاع اور ساز و سامان پر ان کو گھمنڈ اور ناز تھا وہ سب کا سب یہیں اسی دنیا میں رہ گیا۔ اس میں سے کچھ بھی نہ ان کے ساتھ جاسکا اور نہ کچھ ان کے کام آسکا۔ ان کو اس سب سے ہاتھ جھاڑ کر اور بالکل خالی ہاتھ جانا پڑا۔ سو کفر پر مرنا سب سے بڑا خسارہ اور ناقابل تلافی نقصان ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ پس کفر سب خرابیوں کی خرابی اور محرومی و نامرادی کی جڑ بنیاد ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور ایمان و یقین کی دولت تمام خوبیوں کی اصل اور اساس اور حقیقی کامیابی اور فوز و فلاح کی کفیل وضامن ہے ۔ فالحمد للّٰہ الَّذی شَرَّفَنَا بنعمۃِ الایمان و وقَانَا مِنْ خِزْیِ الْکُفِرُ والخسران برحمتہ جلَّ وَعَلا وہُوَ الَعَزِیْزُ الرحمٰنُ ۔ فَزِدْنَا اللّٰہُمَّ اِیْمَانًا وَیَقِیْنًا بمحضِ مَنِّکَ وَکَرمِکَ و الاحسان وثبتنا علیہ یا ارحم الراحمین .
Top