Anwar-ul-Bayan - Az-Zukhruf : 58
وَ قَالُوْۤا ءَاٰلِهَتُنَا خَیْرٌ اَمْ هُوَ١ؕ مَا ضَرَبُوْهُ لَكَ اِلَّا جَدَلًا١ؕ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ
وَقَالُوْٓا : اور کہنے لگے ءَاٰلِهَتُنَا : کیا ہمارے الہ خَيْرٌ : بہتر ہیں اَمْ هُوَ : یا وہ مَا : نہیں ضَرَبُوْهُ لَكَ : انہوں نے بیان کیا اس کو تیرے لیے اِلَّا جَدَلًا : مگر جھگڑے کے طور پر بَلْ هُمْ : بلکہ وہ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ : ایک قوم ہیں جھگڑالو
اور کہنے لگے کہ بھلا ہمارے معبود اچھے ہیں یا وہ عیسیٰ میرے سامنے انہوں نے عیسیٰ کی جو مثال بیان کی ہے تو صرف جھگڑنے کو حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑالو
(43:58) قالواء الھتنا میں ہمزہ استفہامیہ ہے الھتنا مضاف مضاف الیہ ہمارے معبودان۔ ام ھو : ام بمعنی یا۔ ھو ضمیر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) (ابن مرین) کی طرف راجع ہے مطلب یہ کہ : آپ کے نزدیک حضرت عیسیٰ بہتر ہیں تو اگر (معاذ اللہ) وہ جہنم میں ہوئے تو ہمارے معبود بھی ہوا کریں۔ فائدہ : جب اہل قریش سے حضرت عیسیٰ کی رسالت اور ان کے محاسن و مکارم کی مثال بیان کی جاتی ہے تو کج بحثی اور کٹ حجتی کے طور پر مختلف لایعنی حجتیں پیش کرتے ہیں۔ مثلا (1) امام احمد نے صحیح سند سے اور طبرانی نے حضرت ابن عباس کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قریش سے فرمایا تھا :۔ اللہ کے سوا جس کسی کی بھی پوجا کی جاتی ہے اس میں کوئی خیر نہیں۔ قریش نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نبی اور عبد صالح تھے اور (یہ ظاہر ہے) ان کی پوجا کی جاتی ہے (تو کیا عیسیٰ میں کوئی خیر نہیں تھی) (2) صاحب ضیاء القرآن لکھتے ہیں اس آیت کے تحت :۔ کہ صدر الافاضل (رح) اس مقام پر رقمطراز ہیں :۔ کہ جب سید عالم ﷺ نے قریش کے سامنے یہ آیت پڑھی انکم وما تعبدون من دون اللّٰۃ حصب جھنم (21:98) کافرو ! (اس روز) تم اور جن کی تم خدا کے سوا پوجا کرتے ہو دوزخ کا ایندھن ہوں گے، تو یہ سن کر مشرکین کو بہت غصہ آیا۔ اور ابن الزبعریٰ کہنے لگا کہ یا محمد ﷺ کیا یہ خاص ہمارے اور ہمارے معبودوں کے لئے ہے یا کہ ہر امتر اور گروہ کے لئے ؟ سید عالم ﷺ نے فرمایا کہ یہ تمہارے اور تمہارے معبودوں کے لئے بھی ہے اور سب امتوں کے لئے بھی ، اس پر اس نے کہا کہ آپ کے نزدیک عیسیٰ بن مریم نبی ہیں اور آپ ان کی والدہ کی تعریف کرتے ہیں اور آپ کو معلوم ہے کہ نصاریٰ ان دونوں کو پوجتے ہیں اور حضرت عزیز اور فرشتے بھی پوجے جاتے ہیں تو اگر یہ حضرات (معاذ اللہ) جہنم میں ہوں تو ہم راضی ہیں کہ ہم اور ہمارے معبود بھی ان کے ساتھ ہوں اور یہ کہہ کر کفار خوب ہنسے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :۔ ان الذین سبقت لہم منا الحسنی اولئک عنھا مبعدون (21:101) جن لوگوں کے لئے ہماری طرف سے پہلے بھلائی مقرر ہوچکی ہے وہ اس سے دور رکھے جائیں گے۔ اور یہ آیت نازل ہوئی ولما ضرب ابن مریم مثلا ۔۔ یصدون (43:57) جس کا مطلب یہ ہے کہ جب ابن زبعری نے اپنے معبودوں کے لئے حضرت عیسیٰ بن مریم کی مثال پیش کی اور سید عالم ﷺ سے مجادلہ کیا کہ نصاری اسے پوچتے ہیں تو قریش اس کی بات پر خوب ہنسے۔ ما ضربوہ لک الاجدلا : ما نافیہ ہے ضربوہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب مثل کی طرف راجع ہے ای ما ضربوا ھذا المثل : جدلا سخت جھگڑنا باب سمع کا مصدر ہے جس کے معنی شدید خصومت کرنے کے آتے ہیں اور جدل اسم بھی ہے سخت جھگڑنے کے معنی میں آتا ہے، بوجہ مستثنیٰ (منقطع) منصوب ہے۔ فائدہ : آیت کے معنی ہیں : ما ضربوا ھذا المثل الا لاجل الجدل والخصومۃ لا لتمییز الحق من الباطل : انہوں نے یہ مثال محض کج بخشی اور جھگڑے کی خاطر بیان کی نہ کہ حق کو باطل سے تمیز کرنے کے لئے۔ (ورنہ انہیں علم تھا کہ :۔ (1) حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم (علیہما السلام) کی پوجا کے لئے نصاری خود ذمہ دار تھے۔ حضرت عیسیٰ نے تو انہیں پوجا کرنے کے لئے نہیں کہا تھا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے استفسار واذ قال قال اللّٰہ یعیسی ابن مریمء انت قلت للناس اتخذونی وامی الھین من دون اللّٰہ (5:116) اور جب خدا فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری والدہ کو معبود ٹھہراؤ۔ تو ان کا جواب ہوگا ما قلت لہم الا ما امرتنی بہ ان اعبدو اللّٰہ ربی وربکم (5:117) میں نے ان سے کچھ نہیں کہا بجز اس کے جس کا تو نے مجھے حکم دیا ہے وہ یہ کہ تم خدا کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا پروردگار ہے۔ (2) اسی طرح آیت انکم وما تعبدون من دون اللّٰہ حصب جھنم (21:98) میں بت، بےجان معبود اور وہ گمراہ کنندگان مراد ہیں جو دنیا میں لوگوں کو اپنی پوجا پر اکساتے تھے نہ کہ حضرت عیسیٰ و عزیر و ملائکہ وغیرہم جنہوں نے کبھی لوگوں کو ایسی تلقین نہیں کی ۔ (3) بعض کے نزدیک آیت 21:98 میں ما تعبدون کا لفظ اگرچہ عام ہے۔ مگر عام مخصوص البعض ہے اور اس سے مراد حضرت عیسیٰ ، عزیر اور ملائکہ نہیں بلکہ بت اور بےجان معبود ہیں لہٰذا اہل قریش کا اس آیت کی طرف حوالہ خارج از بحث تھا۔ بل ہم قوم خصمون۔ بل حرف اضراب ہے ماقبل کے حکم کو برقرار رکھتے ہوئے مابعد کے حکم کو اس پر اور زیادہ کردیا گیا ہے یعنی یہ لوگ اہل قریش حق کو باطل سے تمیز کرنے کے لئے یہ کج بحثیاں نہیں کر رہے بلکہ وہ ہیں ہی سخت جھگڑالو لوگ۔ خصمون : خصم (باب ضرب) مصدر سے صفت مشبہ کا صیغہ واحد مذکر ہے خصم کی جمع ہے سخت جھگڑنے والے۔ خصم سے ہی بروزن فعیل مبالغہ کا صیغہ خصیم سخت جھگڑنے والا۔
Top