Tafseer-e-Usmani - Az-Zukhruf : 58
وَ قَالُوْۤا ءَاٰلِهَتُنَا خَیْرٌ اَمْ هُوَ١ؕ مَا ضَرَبُوْهُ لَكَ اِلَّا جَدَلًا١ؕ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ
وَقَالُوْٓا : اور کہنے لگے ءَاٰلِهَتُنَا : کیا ہمارے الہ خَيْرٌ : بہتر ہیں اَمْ هُوَ : یا وہ مَا : نہیں ضَرَبُوْهُ لَكَ : انہوں نے بیان کیا اس کو تیرے لیے اِلَّا جَدَلًا : مگر جھگڑے کے طور پر بَلْ هُمْ : بلکہ وہ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ : ایک قوم ہیں جھگڑالو
اور کہتے ہیں ہمارے معبود بہتر ہیں یا وہ1 یہ مثال جو ڈالتے ہیں تجھ پر سو جھگڑنے کو بلکہ یہ لوگ ہیں جھگڑالو
1  حضرت مسیح (علیہ السلام) کا جب ذکر آتا تو عرب کے مشرکین خوب شور مچاتے اور قسم قسم کی آوازیں اٹھاتے تھے۔ روایات میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے قرآن کی یہ آیت پڑھی (اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ۭ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ ) 21 ۔ الانبیآء :98) کہنے لگے نصاریٰ حضرت مسیح کی عبادت کرتے ہیں۔ اب بتاؤ ! تمہارے خیال میں ہمارے معبود اچھے ہیں یا مسیح (علیہ السلام) ظاہر ہے تم مسیح کو اچھا کہو گے۔ جب وہ ہی (معاذ اللہ) آیت کے عموم میں داخل ہوئے تو ہمارے معبود بھی سہی۔ بعض روایات میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا " لیس احد یعبد من دون اللہ فیہ خیر۔ " کہنے لگے کیا مسیح میں کوئی خیر اور بھلائی نہیں ؟ ظاہر ہے کہ آیت کا اور حضور ﷺ کے ان الفاظ کا مطلب ان چیزوں سے متعلق تھا جن کی پرستش لوگ کرتے ہیں۔ اور وہ ان کو اس سے نہیں روکتے۔ اور اپنی بیزاری کا اظہار نہیں کرتے۔ مگر ان معترضین کا منشاء تو محض جھگڑے نکالنا اور کٹ حجتی کر کے حق کو رلانا تھا۔ اس لیے جان بوجھ کر ایسے معنی پیدا کرتے تھے جو مراد متکلم کے مخالف ہوں۔ کبھی کہتے تھے کہ بس معلوم ہوگیا آپ بھی اسی طرح ہم سے اپنی پرستش کرانا چاہتے ہیں جیسے نصاریٰ حضرت مسیح کی کرتے ہیں۔ شاید کبھی یہ بھی کہتے ہوں گے کہ خود قرآن نے مسیح کی مثل یہ بیان کی ہے۔ (اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ ۭخَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ ) 3 ۔ آل عمران :59) اب دیکھ لو ہمارے معبود اچھے ہیں یا مسیح ؟ انہیں کیوں بھلائی سے یاد کرتے ہو ؟ اور ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہو ؟ اور خدا جانے کیا کیا کچھ کہتے ہوں گے۔ ان سب باتوں کا جواب آگے دیا گیا ہے۔
Top