Tafseer-e-Majidi - Az-Zukhruf : 58
وَ قَالُوْۤا ءَاٰلِهَتُنَا خَیْرٌ اَمْ هُوَ١ؕ مَا ضَرَبُوْهُ لَكَ اِلَّا جَدَلًا١ؕ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ
وَقَالُوْٓا : اور کہنے لگے ءَاٰلِهَتُنَا : کیا ہمارے الہ خَيْرٌ : بہتر ہیں اَمْ هُوَ : یا وہ مَا : نہیں ضَرَبُوْهُ لَكَ : انہوں نے بیان کیا اس کو تیرے لیے اِلَّا جَدَلًا : مگر جھگڑے کے طور پر بَلْ هُمْ : بلکہ وہ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ : ایک قوم ہیں جھگڑالو
اور بول اٹھے کہ اچھا تو افضل ہمارے دیوتا ہوئے یا وہ ؟ ،44۔ (حقیقت یہ ہے کہ) انہوں نے یہ آپ کے سامنے محض کٹ حجتی کے طور پر پیش کیا ہے،45۔
44۔ قرآن مجید میں دوسرے پیغمبروں کی طرح حضرت مسیح کا بھی ذکر بارہا بطور نمونہ ونظیر کے آیا ہے۔ مشرکین عرب ان کا معبود ماناجانا بھی سن چکے تھے۔ اب جو رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے ان کی مدح و توصیف سنی تو اپنی سفاہت وحماقت سے مارے خوشی کے اچھل پڑے۔ گویا کوئی بڑی سخت گرفت ان کے ہاتھ آگئی، وہ بول اٹھے کہ جب مسیح باوجود اپنی معبودیت کے قابل مدح وداد ہوسکتے ہیں تو پھر آخر ہمارے دیوتاؤں، ٹھاکروں نے کیا برائی کی ہے ! کیوں نہ مسیح کی طرح یہ بھی بزرگ ومقبول سمجھے جائیں ؟ 45۔ نہ کہ تحقیق وطلب حق کے لئے) مشرکوں نے عیسائیوں کے مسیح اور قرآنی مسیح کے درمیان خلط کردیا، کمال حماقت سے مسلمانوں کو مسیحی سمجھ لیا اور ان کے سامنے بطور حجت الزامی وہ چیز پیش کی جو صرف مسیحیوں کے مقابلہ میں پیش کی جاسکتی ہے۔ مسلمان حضرت مسیح (علیہ السلام) کو معبود سمجھتے ہی کب اور کہاں ہیں ؟ وہ تو عین اس عقیدہ پر لاحول پڑھتے ہیں اور اسے کھلا ہوا شرک سمجھتے ہیں۔ معبودیت والے جزء کا جواب تو مسیحیوں سے طلب کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کو اس عقیدہ سے کیا سروکار۔ قرآن تو اور اس کی تردید ہی بار بار کررہا ہے۔ آج ہندوستان میں بھی اچھے خاصے پڑھے لکھے ہندو لفظ مسیح کو مشترک پاکر اسلامی مسیحی اور مسیحی مسیح کو ایک سمجھ رہے ہیں اور حضرت مسیح کے بارے میں اسلام اور مسیحت کے درمیان کوئی فرق ہی نہیں کرتے۔
Top