Tafseer-e-Baghwi - Az-Zukhruf : 58
وَ قَالُوْۤا ءَاٰلِهَتُنَا خَیْرٌ اَمْ هُوَ١ؕ مَا ضَرَبُوْهُ لَكَ اِلَّا جَدَلًا١ؕ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ
وَقَالُوْٓا : اور کہنے لگے ءَاٰلِهَتُنَا : کیا ہمارے الہ خَيْرٌ : بہتر ہیں اَمْ هُوَ : یا وہ مَا : نہیں ضَرَبُوْهُ لَكَ : انہوں نے بیان کیا اس کو تیرے لیے اِلَّا جَدَلًا : مگر جھگڑے کے طور پر بَلْ هُمْ : بلکہ وہ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ : ایک قوم ہیں جھگڑالو
اور جب مریم کے بیٹے (عیسیٰ ) کا حال بیان کیا گیا تو تمہاری قوم کے لوگ اس سے چلا اٹھے
57، ولما ضرب ابن مریم مثلا، ابن عباس ؓ اور اکثر مسرین رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت عبد اللہ بن زبعری کے نبی کریم ﷺ کے عیسیٰ (علیہ السلام) کی شان میں مجادلہ کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کا قول انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جھنم نازل ہوا اور تحقیق ہم نے اس کو سورة انبیاء (علیہم السلام) میں ذکر کیا ہے۔ ، اذا قوم منہ یصدون، اہل مدینہ اور اہل شام اور کسائی رحمہم اللہ نے، یصدون، صاد کے پیش کے ساتھ یعنی وہ اعراض کرتے ہیں۔ اس کی نظیر اللہ تعالیٰ کا قول ، یصدون عنک صدودا، ہے اور دیگر حضرات نے صاد کی زیر کے ساتھ پڑھا ہے اور اس کے معنی میں ان کا اختلاف ہے۔ کسائی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ دولغتیں ہیں یعرشون اور یعرشون اور شد علیہ یشد اوریشد اور نم بالحدیث اور ینم کی طرح اور ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اس کا معنی ہے وہ دھاڑتے ہیں اور سعید بن مسیب (رح) فرماتے ہیں کہ وہ چیختے ہیں اور ضحاک (رح) فرماتے ہیں کہ بلند آواز کرتے ہیں اور قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ واو یلا کرتے ہیں۔ ، ولما ضرب ابن مریم مثلا اذا قومک منہ یصدون، تو وہ کہنے لگے کہ محمد ﷺ کا یہی ارادہ ہے کہ ہم اس کی عبادت کریں اور اس کو معبود بنالیں جس طرح نصاری نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی عبادت کی۔
Top