Tafseer-e-Madani - Az-Zukhruf : 58
وَ قَالُوْۤا ءَاٰلِهَتُنَا خَیْرٌ اَمْ هُوَ١ؕ مَا ضَرَبُوْهُ لَكَ اِلَّا جَدَلًا١ؕ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ
وَقَالُوْٓا : اور کہنے لگے ءَاٰلِهَتُنَا : کیا ہمارے الہ خَيْرٌ : بہتر ہیں اَمْ هُوَ : یا وہ مَا : نہیں ضَرَبُوْهُ لَكَ : انہوں نے بیان کیا اس کو تیرے لیے اِلَّا جَدَلًا : مگر جھگڑے کے طور پر بَلْ هُمْ : بلکہ وہ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ : ایک قوم ہیں جھگڑالو
اور کہنے لگے کیا ہمارے معبود بہتر ہیں یا وہ ؟ اس کا ذکر بھی انہوں نے آپ سے محض جھگڑنے کے لئے کیا (اور یہ کوئی ایک دفعہ کی بات نہیں تھی) بلکہ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑالو
79 سٹنٹ بازی منکرین و مشرکین کا قدیم وطیرہ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ : سو اس سے کفار و مشرکین کی سٹنٹ بازی اور انکے جھگڑالوپن کا ایک مظہر و نمونہ سامنے آتا ہے۔ سو ایسے لوگ صحیح بات کو جاننے اور ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے اور ان کی عادت اور وطیرہ ہی یہ سٹنٹ بازی اور جھگڑالو پن ہے۔ ورنہ یہ تو ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ { اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ } کے عموم میں تمہارے اوثان و اَصنام کے علاوہ ذوی العقول میں سے صرف وہی لوگ داخل ہوسکتے ہیں جو اپنی پوجا اپنے قصد و اختیار سے کراتے اور اس پر خوش ہوتے ہوں۔ جبکہ حضرت عیسیٰ اور اس طرح کی دوسری تمام مقدس ہستیوں نے تو عمر بھر ایک خدائے واحد کی عبادت و بندگی ہی کی دعوت دی۔ اور ہمیشہ اسی کی تعلیم و تلقین فرمائی۔ اور خود ان کی پوجا و پرستش اگر ان کے ناہنجار اور بدعقیدہ پیروکاروں نے بعد میں کی تو اس میں ان کا کیا قصور ؟ وہ تو ہمیشہ یہی کہتے رہے ۔ { اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ رَبِّیْ وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ } ۔ کل قیامت میں بھی وہ صاف اور صریح طور پر اور برملا یہی اعلان فرمائیں گے ۔ { مَا قُلْتُ لَہُمْ اِلَّا مَآ اَمَرْتَنِیْ بِہٖٓ اَنِ عْبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیْ وَ رَبَّکُمْ } ۔ (المائدۃ : 117) ۔ چناچہ یہاں شان نزول میں ذکر کردہ روایت میں بھی آنحضرت ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا اس سے ہر وہ شخص مراد ہے جو اپنی پوجا پر خوش ہوتا ہو ۔ " کُلُّ مَنْ اَحَبَّ اَنْ یُّعْبَدَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ " ۔ (المراغی) ۔ پس اس سے اہل بدعت کے بعض تحریف پسندوں کی وہ منطق بھی ختم ہوجاتی ہے جو انہوں نے " ماَ " اور " مَن " کے لغوی فرق سے فائدہ اٹھانے کے لئے یہاں پر بگھاری ہے۔ کیونکہ کلمہ " ما " کا استعمال اگرچہ عام طور پر غیر ذوی العقول ہی کے لئے آتا ہے مگر ذوی العقول کے لئے بھی اس کا استعمال عام اور شائع و ذائع ہے۔ لغت عرب کے علاوہ خود قرآن حکیم میں بھی اس کی بیشمار مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً سورة شمس میں ہے ۔ { وَالسَّمَآئِ وَمَا بَنٰہَا، وَالاَرْضِ وَ مَا طَحٰہَا، وَنَفْسٍ وَّمَا سَوَّاہَا } ۔ (الشمس : 5-7) کہ یہاں پر کلمہ " مَا "، " مِن " ہی کے معنیٰ میں ہے۔ اور خود ان کے بڑوں نے بھی اس کا ترجمہ اسی کے مطابق کیا ہے۔ اسی طرح سورة کافرون میں جو آیت نمبر 3 اور 5 میں ۔ { مَا اَعْبُدُ } ۔ آیا ہے اس میں بھی " مَا " سے مراد قطعی اور یقینی طور پر " من " ہی ہے۔ کیونکہ اس سے مراد حضرت معبود حق ہی ہے ۔ جَلَّ جَلَالُہٗ ۔ بہرکیف کفار کا یہ اعتراض محض جدل اور مغالطہ کے لئے تھا ورنہ اصل حقیقت ان سے مخفی نہ تھی۔ (القرطبی وغیرہ) ۔ اور اس آیت کریمہ کا ایک اور مطلب جو بعض حضرات اہل علم نے لیا ہے اور جو آیت کریمہ کے ظاہری الفاظ و کلمات پر زیادہ چسپاں ہوتا ہے یہ ہے کہ جب تمہاری قوم کے سامنے حضرات انبیائے کرام کی دعوت کے سلسلے میں حضرت عیسیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے اور لوگوں کو اس حقیقت سے آگاہ کیا جاتا ہے تو وہ بھی اسی دین توحید کے داعی تھے جسکی دعوت دوسرے انبیائے کرام نے دی۔ تو تمہاری قوم کے جھگڑالو چیخ اور چلا اٹھتے ہیں کہ لو یہ شخص ہمارے معبدوں کی تو برائی کرتا ہے مگر مسیح کی تعریف کرتا ہے۔ حالانکہ ہمارے معبود تو فرشتے ہیں جبکہ مسیح بہرحال مریم کے بیٹے ہیں۔ اور اس طرح یہ لوگ عام لوگوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرآن حضرت عیسیٰ کا ایک معبود کی حیثیت سے اعتراف کرتا ہے۔ سو یہ ایک سازش ہے کہ ہمارے ذہنوں سے ہمارے آبائی دیوتاؤں کی عقیدت ختم کرکے ان کی جگہ مسیح کی الوہیت کا عقیدہ راسخ کیا جائے۔
Top