Al-Quran-al-Kareem - Az-Zukhruf : 58
وَ قَالُوْۤا ءَاٰلِهَتُنَا خَیْرٌ اَمْ هُوَ١ؕ مَا ضَرَبُوْهُ لَكَ اِلَّا جَدَلًا١ؕ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ
وَقَالُوْٓا : اور کہنے لگے ءَاٰلِهَتُنَا : کیا ہمارے الہ خَيْرٌ : بہتر ہیں اَمْ هُوَ : یا وہ مَا : نہیں ضَرَبُوْهُ لَكَ : انہوں نے بیان کیا اس کو تیرے لیے اِلَّا جَدَلًا : مگر جھگڑے کے طور پر بَلْ هُمْ : بلکہ وہ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ : ایک قوم ہیں جھگڑالو
اور انھوں نے کہا کیا ہمارے معبود بہتر ہیں یا وہ ؟ انھوں نے تیرے لیے یہ (مثال) صرف جھگڑنے ہی کے لیے بیان کی ہے، بلکہ وہ جھگڑالو لوگ ہیں۔
(1) وقالواء الھتنا خیراً ام ھو : اس جملے کی وضاحت اوپر کی تفسیر میں بیان ہوچکی ہے۔ (2) ماضربوہ لک الا جدلاً بل ھم قوم خصمون : یعنی ان مشرکین نے مسیح ؑ کا ذکر محض جھگڑے کے لئے کیا ہے، ورنہ وہ خوب جانتے ہیں کہ مسلمان ان کا عزت و تکریم سے ذکر معبود ہونے کے لحاظ سے نہیں کرتے، بلکہ اللہ تعالیٰ کا برگزیدہ بندہ ہونے کے لحاظ سے کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ ہیں ہی سخت جھگڑالو کہ متکلم کی مراد اپنے پاس سے گھڑ کر جھگڑنا اور شور مچانا شروع کردیتے ہیں۔ (3) اکثر مفسرین نے ان آیات کی شان نزول یہ بیان فرمایء ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی :(انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جھنم) (الانبیائ : 98) (بےشک تم اور جنھیں تم اللہ کے سوا پوجتے وہ، جہنم کا ایندھن ہیں) تو عبداللہ بن تو بعری کہنے لگا کہ اللہ کے سوا تو عیسیٰ ابن مریم کی پوجا بھی کی جاتی ہے، اگر وہ جہنم میں گئے تو ہمیں اپنے معبودوں کا جہنم میں جانا بھی منظور ہے۔ یہ سننے ہی مشرکین نے بہت شور مچایا کہ محمد (ﷺ) لا جواب ہوگئے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی :(ان الذین سبقت لھم منا الحسنیٰ اولئک عنھا مبعدون) (الانبیائ : 101)”بیشک وہ لوگ جن کے لئے ہماری طرف سے پہلے بھلائی طے ہوچکی وہ اس سے دور رکھے گئے ہوں گے۔“ اور اس سورت کی آیت (57) نازل ہوئی :(ولما ضرب ابن مریم مثلاً اذا قومک منہ یصدون)”اور جب ابن مریم کو بطور مثال بیان کیا گیا، اچانک تیری قوم کے لوگ اس پر شور مچا رہے تھے۔“ (”زبعریذ“ زاء کے کسرہ، باء کے فتحہ اور عین کے سکو ن کے ساتھ ہے، راء کے بعد الف مقصورہ ہے، یہ عبداللہ بن زبعری بعد میں مسلمان ہوگئے تھے۔ ؓ یہ تفسیر عبداللہ بن عباس ؓ سے حسن سند کے ساتھ مروی ہے۔ (دیکھیے مشکل الاثار، باب بیان مشکل ماروی عن رسول اللہ ﷺ فی المراد بقول اللہ عزوجل :(انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جھنم) ح 1986 ء مسند احمد میں یہ روایت ابن عباس ؓ سے ان الفاظ میں ہے کہ رسول اللہ ں نے قریش سے کہا :(یامعشر قریش ! انہ لیس احد یعبد من دون اللہ فیہ خیر)”اے جماعت قریش ! حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کی جاتی جس میں کوئی خیر ہو۔“ انہوں نے کہا، ”اے محمد ! کیا تم یہ نہیں کہتے کہ عیسیٰ نبی تھا اور اللہ کے بندوں میں سے نیک بندہ تھا، تو اگر تم سچے ہو تو مسیح اور ان کے معبود ایک جیسے ہوگئے۔“ (یہ کہہ کر انہوں نے شور مچانا شروع کردیا) تو نص نے یہ آیت نازل فرمائی :(ولما ضرب ابن مریم مثلاً اذا قومک منہ یصدون) (الزخرف :58)”جب ابن مریم کو بطور مثال بیان کیا گیا، اچانک تیری قوم کے لوگ اس پر شور مچا رہے تھے۔“ (مسند احمد :318/1، ح :2923) مسند کے محققین نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔ واضح رہے کہ ابن عباس ؓ سے مروی یہ تفسیر اس تفسیر کے خلاف نہیں جو آیات کے سیاق کے لحاظ سے اوپر کی گئی ہے کیونکہ اصول تفسیر میں یہ بات مسلم ہے کہ صحابہ کرام ؓ ”نزلت فی کذا“ (یہ آیت فلاں کے بارے میں نازل ہوئی) ان واقعات کے متعلق بھی فرما دیتے ہیں جن پر کوئی آیت منطبق ہوتی ہو۔ رسول اللہ ﷺ بھی ایسے موقاع پر پہلے اتری ہوئی کوئی آیت پڑھ دیتے تھے۔ ظاہر ہے مشرکین جن کی عادت ہی جھگڑنا اور کج بحثی کرنا تھا، جھگڑنے کا کوئی موقع کم ہی ہاتھ سے جانے دیتے تھے۔ ان مواقع میں سے ایک موقع :(انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جھنم) (الابیائ، 98) کا نزول بھی تھا، اس پر کفار نے جو شور مچایا، آیت :(ولما ضرب ابن مریم مثلاً اذا قومک منہ یصدون) اس پر پوری طرح منطبق ہوتی ہے، جیسا کہ ابن عباس ؓ نے فرمایا۔
Top