Anwar-ul-Bayan - Ar-Rahmaan : 54
مُتَّكِئِیْنَ عَلٰى فُرُشٍۭ بَطَآئِنُهَا مِنْ اِسْتَبْرَقٍ١ؕ وَ جَنَا الْجَنَّتَیْنِ دَانٍۚ
مُتَّكِئِيْنَ : تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے عَلٰي فُرُشٍۢ : ایسے فرشوں پر بَطَآئِنُهَا : ان کے استر مِنْ اِسْتَبْرَقٍ ۭ : موٹے تافتے کے ہوں گے وَجَنَا الْجَنَّتَيْنِ : اور پھل دونوں باغوں کے۔ پھل توڑیں گے دونوں باغوں کے دَانٍ : قریب قریب ہوں گے۔ جھکے ہوئے ہوں گے
(اہل جنت) ایسے بچھونوں پر جن کے استر اطلس کے ہیں تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے اور دونوں باغوں کے میوے قریب (جھک رہے) ہیں
(55:54) متکئین : اسم فاعل جمع مذکر اتکاء (افتعال) مصدر۔ تکیہ لگانے والے۔ تکیہ لگائے ہوئے۔ منصوب بوجہ حال ہونے کے خائفین سے آیت (46) ۔ درآں حال یہ کہ وہ تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے (من خاف جمع کے معانی میں ہے) فرش۔ فراش کی جمع بمعنی بستر، بچھونا۔ فرش وفراش مصدر (باب نصر، ضرب) ۔ الفرش کے اصل معنی کپڑے کو بچھانے کے ہیں۔ لیکن بطور اسم کے ہر اس چیز کو جو بچھائی جائے فرش وفراش کہا جاتا ہے۔ چناچہ اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ الذی جعل لکم الارض فراشا (2:22) جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا بنایا۔ آیت زیر غور کا ترجمہ ہوگا۔ ایسے بچھونوں پر جن کے استر اطلس کے ہوں گے۔ بطائنھا : مضاف مضاف الیہ۔ بطائن بطانۃ کی جمع ہے بمعنی استر، کپڑے کا باطنی حصہ جو جسم سے ملاد ہے۔ یہ بطن سے مشتق ہے یہ ظھر کی ضد ہے اوپر کی جانب کو ظہر اور اندر کی جانب کو بطن بولتے ہیں۔ کپڑے کے اوپر کے حصے کو ظھارۃ کہتے ہیں اور اندرونی نیچے کے حصہ کو جو جسم سے ملا رہے۔ جیسے استر وغیرہ اسے بطانۃ کہتے ہیں البطن کے اصل معنی پیٹ کے ہیں اور اس کی جمع بطون ہے۔ ہر اس چیز کو جس کا حاسہ بصر سے ادراک ہو سکے اسے ظاہر اور جس کا حاسہ بصر سے ادراک نہ ہوسکے۔ اسے باطن کہا جاتا ہے۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب فرش کے لئے ہے ان بستروں کے استر۔ استبرق۔ ریشم کا زریں موٹا کپڑا۔ دیبا۔ بطائنھا من استبرق۔ یہ صفت ہے فرش کی، ان بستروں کے استر ریشم کے موٹے کپڑے کے ہوں گے۔ وجنا الجنتین دان۔ واؤ عاطفہ۔ جنا الجنتین مضاف مضاف الیہ مل کر مبتدا دان اس کی خبر۔ جناح : ن ی مادہ سے مشتق ہے۔ جنیت (باب ضرب) جن یا الثمرۃ واجتنی تھا۔ میں نے درخت سے پھل توڑا۔ جنا وجنی اسم ہے بمعنی اسم مفعول مجنی یعنی درختوں سے چنے جانے والے اور توڑے جانے والے پھل۔ یعنی جنت کے درختوں سے پھل توڑنا آسان ہوگا دشوار نہ ہوگا۔ دان : اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر۔ جھکنے والا ، نزدیک۔ دنو (باب نصر) مصدر۔ اسی سے دنیا ہے جو اسم تفضیل ہے بمعنی بہت قریب۔ اسی معنی میں اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ وذللت قطوفھا تذلیلا (72:14) اور میووں کے گچھے جھکے ہوئے لٹک رہے ہونگے
Top