Anwar-ul-Bayan - Al-Anfaal : 68
لَوْ لَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِیْمَاۤ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
لَوْ : اگر لَا : نہ كِتٰبٌ : لکھا ہوا مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے سَبَقَ : پہلے ہی لَمَسَّكُمْ : تمہیں پہنچتا فِيْمَآ : اس میں جو اَخَذْتُمْ : تم نے لیا عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
اگر خدا کا حکم پہلے نہ ہوچکا ہوتا تو جو (فدیہ) تم نے لیا ہے اس کے بدلے تم پر بڑا عذاب نازل ہوتا۔
(8:68) کتب من اللہ۔ اللہ کا فرمان۔ اشارہ ہے ارشاد الٰہی کی طرف فاذا لقیتم الذین کفروا فضرب الرقاب حتی اذا اثخنتموہم فشدوا الوثاق فاما منا بعد واما فداء حتی تضع الحرب اوزارھا (47:4) پس جب ان کافروں سے تمہاری مڈ بھیڑ ہوجائے تو پہلا کام گردنیں مارنا ہے یہاں تک کہ تم خوب ان کو تہ و تیغ کرکے کچل دو ۔ تب قیدیوں کو مضبوط باندھو۔ اس کے بعد تمہیں اختیار ہے کہ احسان کرو یا فدیہ کا معاملہ کرو تاآنکہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے۔ سبق۔ وہ پہلے گزر چکا ۔ وہ پہلے ہوچکا۔ اس نے سبقت کی۔ لمسکم۔ تم کو ضرور پہنچتا۔ (عذاب عظیم) لام تاکید کا ہے۔ مس ماضی واحد مذکر غائب کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ مس (باب نصر) کا معنی ہے چھو دینا۔ دکھ پہنچانا۔ لاحق ہونا لگ جانا۔ (باب نصر اور سمع) سے یہ بمعنی جماع بھی آتا ہے۔ انی یکون لی ولد ولم یمسسنی بشر (3:47) میرے ہاں بچہ کیونکر ہوگا حالانکہ کسی انسان نے مجھے ہاتھ لگایا نہیں۔ اور ان طلقتموھن من قبل ان تمسوھن (2:237) اور اگر تم عورتوں کو ان سے مجامعت سے پہلے طلاق دیدو۔ مجازا مس کا اطلاق جنوں پر بھی ہوتا ہے مثلاً کالذی یتخبطہ الشیطن من المس (2:275) جیسا کہ جن نے لپٹ کر دیوانہ بنادیا ہو۔ تکلیف کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً مسی الشیطن (38:41) شیطان نے مجھ کو اذیت دے رکھی ہے۔ فیما اخذتم۔ اس بارے میں جو تم نے لیا۔ بوجہ اس کے جو تم نے لیا ہے یعنی جو مال غنیمت تم نے لیا ہے (اس میں قیدیوں کا فدیہ لینا بھی شامل ہے) بعض نے اس سے قیدی مراد لئے ہیں۔ لولا ۔۔ عذاب عظیم۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے اپنا حکم پہلے ہی لوح محفوظ میں لکھ نہ دیا ہوتا۔ کہ مال غنیمت تمہارے لئے حلال ہے اور اگر اس کا یہ دستور نہ ہوتا کہ جب تک وہ بیان کھول کر نہ کردے تب تک وہ عذاب کسی کو نہیں دیا کرتا۔ تو جو مال غنیمت اور جو مال فدیہ تم نے لیا ہے اس پر بھاری عذاب ہوتا۔ (یہ حکم جو لوح محفوظ میں لکھا جا چکا تھا لیکن ابھی نازل نہیں ہوا تھا سورة محمد میں آیۃ 4 میں نازل ہوا۔ اوپر ملاحظہ ہو کتب من اللہ کے محاذ) ۔ الخازن۔ بیضاوی۔ زمخشری نے اس آیۃ کا مطلب ان ہی معنوں میں لیا ہے۔ لیکن مودودی صاحب نے تفہیم القرآن میں آیہ 47:4 سورة محمد کا نزول سورة انفال کی آیۃ ہذا کے نزول سے قبل کا تصور کیا ہے ۔ وہ رقمطراز ہیں :۔ اس عبارت (یعنی سورة انفال کی آیہ ہذا) پر غور کرنے سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ اس موقعہ پر عتاب جس بات پر ہوا تھا وہ یہ تھی کہ جنگ بدر میں دشمنوں کو اچھی طرح کچل دینے سے پہلے مسلمان دشمن کے آدمیوں کو قید کرنے میں لگ گئے تھے۔ حالانکہ جنگ سے پہلے جو ہدایت سورة محمد میں ان کو دی گئی تھی وہ یہ تھی کہ :۔ ” جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو “۔ تاہم سورة محمد میں مسلمانوں کو قیدیوں سے فدیہ لینے کی اجازت فی الجملہ دی جاچکی تھی اس لئے جنگ بدر کے قیدیوں سے جو مال لیا گیا اس اللہ نے حلال قرار دیا اور مسلمانوں کو اس کے لینے پر سزا نہ دی۔ اگر اللہ کو نوشتہ پہلے نہ لکھا جاچکا ہوتا۔ ” لولا کتب من اللہ سبق “ کے الفاظ اس امر کی طرف صاف اشارہ کر رہے ہیں کہ اس واقعہ سے پہلے فدیہ لینے کی اجازت کا فرمان قرآن میں آچکا تھا۔ اور ظاہر ہے کہ قرآن کے اندر سورة محمد کی اس آیت کے سوا کوئی دوسری آیت ایسی نہیں ہے جس میں یہ فرمان پایا جاتا ہو۔ اس لئے یہ ماننا پڑے گا کہ یہ آیت (سورۃ محمد آیت 4) سورة انفال کی آیت (آیۃ ہذا) سے پہلے نازل ہوچکی تھی۔ مگر یہ یاد رہے کہ ترتیب نزول کے مطابق سورة انفال 88 نمبر پر ہے اور سورة محمد نمبر شمار 95 پر ہے۔ اس میں دیگر اقوال یہ بھی ہیں کہ :۔ (1) خدا پہلے سے طے کرچکا ہے کہ بدوی صحابی کو عذاب نہیں کرے گا۔ ان کیلئے مغفرت تحریر ہوچکی ہے (الحسن۔ مجاہد۔ سعید بن جبیر) (2) اللہ تعالیٰ ہدایت دینے کے بعد کسی قوم کو گمراہ نہیں کرتا۔ تاآنکہ واضح نہ کر دے ان پر کہ کس چیز سے بچنا لازمی ہے اور یہ کہ بھول اور غفلت کی وجہ سے کسی فعل کا ارتکاب موجب سرزنش نہ ہوگا۔ (ابن جریج)
Top