Taiseer-ul-Quran - Al-Anfaal : 68
لَوْ لَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِیْمَاۤ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
لَوْ : اگر لَا : نہ كِتٰبٌ : لکھا ہوا مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے سَبَقَ : پہلے ہی لَمَسَّكُمْ : تمہیں پہنچتا فِيْمَآ : اس میں جو اَخَذْتُمْ : تم نے لیا عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
اگر ایسا ہونا پہلے سے نہ لکھا جاچکا ہوتا تو جو کچھ تم نے (فدیہ) لیا ہے اس کی پاداش میں تمہیں بہت 70 بڑی سزا دی جاتی
70 اسارٰی بدر کے متعلق مشورہ اور اللہ کی طرف سے عتاب نازل ہونا :۔ آیت نمبر 67 اور 68 کے شان نزول سے متعلق مندرجہ ذیل دو احادیث ملاحظہ فرمائیے :۔ 1۔ سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے بعد جب قیدی قید کرلیے گئے تو آپ نے ابوبکر صدیق ؓ و عمر سے پوچھا : تمہاری ان قیدیوں کے بارے میں کیا رائے ہے ؟ ابوبکر ؓ نے عرض کی۔ اے اللہ کے نبی ! یہ چچا کے بیٹے اور خاندان کے لوگ ہیں۔ میری رائے یہ ہے کہ ان سے فدیہ لیا جائے تاکہ کفار کے مقابلہ میں ہمیں قوت حاصل ہو اور شاید اللہ انہیں اسلام کی ہدایت دے۔ پھر آپ نے عمر سے پوچھا : اے ابن خطاب ! تمہاری کیا رائے ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : اے اللہ کے رسول ! میری رائے ابوبکر صدیق ؓ سے مختلف ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ انہیں ہمارے حوالہ کر دیجئے تاکہ ہم ان کی گردنیں اڑائیں۔ عقیل کو علی کے حوالہ کیجئے کہ وہ اس کی گردن اڑا دیں۔ میرے حوالے فلاں کو کیجئے تاکہ میں اس کی گردن اڑا دوں۔ اس لیے کہ یہ لوگ کفر کے ستون اور سرغنے ہیں۔ سیدنا عمر کہتے ہیں کہ آپ ابوبکر صدیق ؓ کی رائے کی طرف مائل ہوئے اور میری رائے کی طرف مائل نہ ہوئے۔ دوسرے دن صبح میں کیا دیکھتا ہوں کہ آپ اور ابوبکر صدیق ؓ بیٹھے رو رہے ہیں۔ میں نے کہا اللہ کے رسول ! مجھے بتلائیے آپ اور آپ کے دوست کس وجہ سے رو رہے ہیں۔ تاکہ اگر مجھے رونا آئے تو روؤں اور اگر نہ آئے تو آپ کی وجہ سے رونے والی شکل ہی بنا لوں۔ آپ نے فرمایا : میں اس وجہ سے رو رہا ہوں جو تمہارے ساتھیوں نے قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑنے کے سلسلہ میں مجھ سے کہی تھی۔ میرے سامنے ان کا عذاب پیش کیا گیا، جو اس درخت سے بھی زیادہ قریب تھا۔ چناچہ اللہ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ ماکان لنبی۔۔ تاآخر (مسلم، کتاب الجہاد، باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر) 2۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ بدر کے دن جنگی قیدی رسول اللہ کے پاس لائے گئے۔ آپ نے صحابہ سے پوچھا : تمہاری ان قیدیوں کے بارے میں کیا رائے ہے پھر اس حدیث میں پورا قصہ ذکر کیا۔ پھر رسول اللہ نے فرمایا : ان میں سے ہر ایک کو یا فدیہ دینا ہوگا یا اس کی گردن اڑا دی جائے گی۔ عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا یا رسول اللہ ! بجز سہیل بن بیضاء کے کیونکہ میں نے سنا ہے کہ وہ اسلام کا ذکر کرتا ہے۔ اس بات پر رسول اللہ چپ ہو رہے۔ مجھے اس دن بہت خوف لاحق ہوگیا کہ کہیں آسمان سے مجھ پر پتھر نہ برسیں۔ میں اسی خوف میں مبتلا تھا کہ آپ نے فرمایا : بجزسہیل بن بیضاء کے اور قرآن میں سیدنا عمر کی رائے کے مطابق یہ آیات نازل ہوئیں۔ (ماکان لنبی) ۔۔ تاآخر (ترمذی، ابو اب التفسیر) کیا عتاب فدیہ لینے کے فیصلہ کی وجہ سے تھا یا قتل کی بجائے قیدی بنانے کی وجہ سے ؟:۔ مزید تفصیل یہ ہے کہ غزوہ بدر میں کافروں کے (70) ستر آدمی مارے گئے اور (70) ستر قید ہوئے تھے۔ قیدیوں کے متعلق رسول اللہ کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ خواہ انہیں قتل کردیا جائے، یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے، اور اس اختیار میں مسلمانوں کی آزمائش مقصود تھی کہ وہ ان دونوں صورتوں میں سے کونسی صورت اختیار کرتے ہیں۔ اسی فیصلہ کے لیے آپ نے شوریٰ بلائی اکثریت کی رائے فدیہ لے کر چھوڑ دینے کے متعلق ہوئی۔ آپ نے بھی اپنی طبعی نرمی کی بنا پر اسی فیصلہ کو ترجیح دی۔ لیکن اللہ کی رضا یہ تھی کہ قیدیوں سے فدیہ لینے کی بجائے ان کو قتل کردیا جائے۔ اسی وجہ سے ان آیات میں عتاب نازل ہوا۔ جیسا کہ عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت سے ظاہر ہو رہا ہے۔ کیونکہ یہ عین ممکن تھا کہ اگر کفر کے ان ستر سرغنوں کو قتل کردیا جاتا۔ تو کافروں کو دوبارہ مدینہ پر حملہ آور ہونے کی ہمت ہی نہ رہتی۔ دوسری توجیہ یہ ہے کہ عتاب اس لیے نازل نہیں ہوا تھا کہ صحابہ کی اکثریت نے رسول اللہ سمیت فدیہ لینے کی رائے کو اختیار کر کے اجتہادی غلطی کی تھی۔ کیونکہ قتل یا فدیہ دونوں میں سے ایک صورت کا جب آپ کو پہلے ہی اختیار دیا جا چکا تھا تو پھر فدیہ کی رائے قبول کرلینے پر عتاب کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی۔ بلکہ اس عتاب کی اصل وجہ یہ تھی کہ صحابہ نے میدان جنگ میں ہی ان قیدیوں کی اکثریت کو قتل کیوں نہ کردیا۔ گویا اس عتاب کا روئے سخن ان صحابہ کی طرف ہے جنہوں نے دنیوی مفاد کی خاطر ان کافروں کو قتل کرنے کی بجائے قید کیا تھا اور آیت کے الفاظ (مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗٓ اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ ۭتُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا ڰ وَاللّٰهُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَةَ ۭوَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 67؀) 8 ۔ الانفال :67) سے بھی مفہوم واضح ہوتا ہے۔ فدیہ کی مقدار :۔ ان قیدیوں سے جو فدیہ لیا گیا اس کی مقدار چار ہزار درہم فی کس تھی اور ان قیدیوں میں آپ کے چچا سیدنا عباس آپ کے داماد ابو العاص، نوفل بن حارث اور آپ کے چچا زاد بھائی عقیل بن ابی طالب بھی شامل تھے۔ آپ کی صاحبزادی سیدہ زینب نے فدیہ میں وہ ہار بھیجا جو ان کی والدہ سیدہ خدیجہ نے آپ کو شادی کے وقت جہیز میں دیا تھا۔ آپ نے جب وہ ہار دیکھا تو آنکھیں نم آلود ہوگئیں۔ اور رقت آمیز لہجہ میں صحابہ سے پوچھا : اگر تم پسند کرو تو میں زینب کے قیدی کو چھوڑ دوں اور زینب کا ہار واپس کردوں۔ یہ آپ نے اس لیے پوچھا کہ فدیہ کا مال بھی اموال غنائم کے مشترکہ اموال میں شمار ہوتا تھا۔ چناچہ صحابہ کرام ؓ ثنے اس کی اجازت دے دی۔ حالانکہ اس وقت آپ سپہ سالار بھی تھے۔ اسلامی ریاست کے سربراہ مملکت بھی اور ایسے رسول بھی جن کی غیر مشروط اور بلاچوں و چرا اطاعت سب مسلمانوں پر واجب تھی۔ لیکن جب انصاف کا معاملہ آیا تو آپ نے صحابہ کرام ؓ کی رضامندی کو لازم سمجھا۔ یہ ہے اسلامی اور غیر اسلامی اقدار کا فرق۔ پھر آپ نے زر فدیہ کی وصولی میں بھی انتہائی نرمی اختیار کی جن کافروں کے پاس زر فدیہ نہیں تھا اور وہ پڑھے لکھے تھے۔ ان کا زر فدیہ یہ طے ہوا کہ وہ دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھلا دیں۔ اور بعض کافروں کو صرف اس وعدے پر بھی چھوڑ دیا گیا کہ وہ آئندہ مسلمانوں کے خلاف کسی جنگ میں حصہ نہیں لیں گے۔
Top