Tafseer-e-Usmani - Al-Anfaal : 68
لَوْ لَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِیْمَاۤ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
لَوْ : اگر لَا : نہ كِتٰبٌ : لکھا ہوا مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے سَبَقَ : پہلے ہی لَمَسَّكُمْ : تمہیں پہنچتا فِيْمَآ : اس میں جو اَخَذْتُمْ : تم نے لیا عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
اگر نہ ہوتی ایک بات جس کو لکھ چکا اللہ پہلے سے تو تم کو پہنچتا اس لینے میں بڑا عذاب2
2 یعنی یہ غلطی تو فی حدذاتہ ایسی تھی کہ سخت سزا ان لوگوں کو دی جاتی جنہوں نے دنیاوی سامان کا خیال کر کے ایسا مشورہ دیا مگر سزا دہی سے وہ چیز مانع ہے جو خدا پہلے سے لکھ چکا اور طے کرچکا ہے۔ اور وہ کئی باتیں ہوسکتی ہیں۔ (1) مجتہد کو اس قسم کی اجتہادی خطاء پر عذاب نہیں ہوگا (2) جب تک خدا امراً و نہیاً کسی چیز کا صاف حکم بیان نہ فرمائے اس وقت تک اس کے مرتکب کو عذاب نہیں دیتا (3) اہل بدر کی خطاؤں کو خدا معاف فرما چکا ہے (4) غلطی سے جو رویہ قبل از وقت اختیار کرلیا گیا یعنی فدیہ لے کر قیدیوں کو چھوڑ دینا خدا کے علم میں طے شدہ تھا کہ آئندہ اس کی اجازت ہوجائے گی۔ " فاما منا بعد واما فداءً " (5) یہ بھی طے شدہ ہے کہ جب تک پیغمبر ﷺ ان میں موجود ہیں یا لوگ صدق دل سے استغفار کرتے ہیں، عذاب نہ آئے گا (6) ان قیدیوں میں سے بہت کی قسمت میں اسلام لانا لکھا گیا تھا۔ الغرض اس قسم کے موانع اگر نہ ہوتے تو یہ غلطی اتنی عظیم و ثقیل تھی کہ سخت عذاب نازل ہوجانا چاہیے تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ اس قولی تنبیہ کے بعد وہ عذاب جو اس طرح کی خوفناک غلطی پر آسکتا تھا آپ کے سامنے نہایت قریب کر کے پیش کیا گیا۔ گویا یہ قولی تنبیہ کو زیادہ موثر بنانے کی ایک صورت تھی آپ ﷺ اس منظر کو دیکھ کر وقف گریہ و بکا ہوگئے۔ حضرت عمر نے سبب پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے سامنے ان کا عذاب پیش کیا گیا ہے یعنی جس کا آنا ان پر ممکن تھا اگر موانع مذکورہ بالا نہ ہوتے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ آپ کے سامنے یہ پیش کرنا اسی قسم کا تھا جیسے صلوٰۃ کسوف ادا کرتے وقت آپ کے سامنے جنت و دوزخ دیوار قبلہ میں متمثل کردی گئی تھی۔ یعنی اس متوقع عذاب کا نظارا کرانا تھا اور بس۔
Top