Anwar-ul-Bayan - At-Tawba : 128
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
لَقَدْ جَآءَكُمْ : البتہ تمہارے پاس آیا رَسُوْلٌ : ایک رسول مِّنْ : سے اَنْفُسِكُمْ : تمہاری جانیں (تم) عَزِيْزٌ : گراں عَلَيْهِ : اس پر مَا : جو عَنِتُّمْ : تمہیں تکلیف پہنچے حَرِيْصٌ : حریص (بہت خواہشمند) عَلَيْكُمْ : تم پر بِالْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں پر رَءُوْفٌ : انتہائی شفیق رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
(لوگو) تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں۔ تمہاری تکلیف انکو گراں معلوم ہوتی ہے اور تمہاری بھلائی کے بہت خواہشمند ہیں۔ (اور) مومنوں پر نہایت شفقت کرنیوالے (اور) مہربان ہیں۔
(9:128) عزیز علیہ۔ شاق گزرتی ہے اس پر ۔ گراں گزرتی ہے اس پر۔ بروزن فعیل مبالغہ کا صیغہ ہے جب اس کا صلہ علیٰ ہو تو شاق اور دشوار کے معنی دیتا ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ کی صفت ہو تو جو ہمیشہ غالب رہے کا معنی دیتا ہے اس کا باب نصر ہے ۔ اور جب ضرب ہو تو اس کا معنی گراں ہونے کا ہوتا ہے۔ ما عنتم۔ میں ما موصولہ ہے۔ عنتم۔ ماضی جمع مذکر عنت سے۔ عنت یعنت (سمع) دشواری میں پڑنا۔ مصیبت میں ہلاک ہونا۔ یعنی تمہارا دشواری میں پڑنا یا کسی مشقت یا تکلیف میں مبتلا ہونا اس پر شاق گزرتا ہے۔ حریص علیکم۔ ای حریص علی ایمانکم وایصال الخیر الیکم۔ یعنی تمہارے لئے ایمان۔ بھلائی اور ہدایت کا نہایت ہی خواہشمند ہے۔ حریص بروزن فعیل۔ حرص کرنے والا۔ تلاش رکھنے والا۔ شدت سے خواہش رکھنے والا۔ اس آیت میں خطاب نہ صرف اہل عرب سے ہے بلکہ ساری دنیا کے عوام الناس سے ہے۔
Top