Tafseer-e-Madani - At-Tawba : 127
وَ اِذَا مَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ نَّظَرَ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ١ؕ هَلْ یَرٰىكُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوْا١ؕ صَرَفَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ
وَاِذَا مَآ : اور جب اُنْزِلَتْ : اتاری جاتی ہے سُوْرَةٌ : کوئی سورة نَّظَرَ : دیکھتا ہے بَعْضُھُمْ : ان میں سے (کوئی ایک) اِلٰى : کو بَعْضٍ : بعض (دوسرے) هَلْ : کیا يَرٰىكُمْ : دیکھتا ہے تمہیں مِّنْ اَحَدٍ : کوئی ثُمَّ : پھر انْصَرَفُوْا : وہ پھرجاتے ہیں صَرَفَ : پھیر دئیے اللّٰهُ : اللہ قُلُوْبَھُمْ : ان کے دل بِاَنَّھُمْ : کیونکہ وہ قَوْمٌ : لوگ لَّا يَفْقَهُوْنَ : سمجھ نہیں رکھتے
اور جب کوئی سورت اترتی ہے تو یہ ایک دوسرے کو دیکھنے لگ جاتے ہیں، کہ کہیں کوئی تم کو دیکھ تو نہیں رہا، پھر یہ چپکے سے نکل بھاگتے ہیں، اللہ نے پھیر دیا ان کے دلوں کو، اس بناء پر کہ یہ لوگ سمجھتے نہیں (حق اور حقیقت کو)
224 منافقین دستور خداوندی کی زد میں : سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ پھرگئے تو اللہ نے پھیردیا ان کے دلوں کو۔ ان کے اپنے خبث باطن، سوء اختیار اور بدنیتی کی وجہ سے۔ جس کی بناء پر یہ حق سے محروم ہوجاتے ہیں کہ جیسی نیت ویسی مراد۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا گیا (فلمازاغوا ازاغ اللہ قلوبہم) معلوم ہوا کہ حق اور اہل حق کی مجالس سے منہ موڑنابڑی محرومی اور بدبختی ہے اور اس سے انسان نورحق و ہدایت سے محروم ہوجاتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو یہ اثرونتیجہ ہے ان لوگوں کی محرومی کا یہ بدنصیب لوگ موقع پاکرمجلس نبوی سے اس طرح کھسک جاتے ہیں۔ آپس میں کنکھیوں سے اشارے کرتے ہوئے وہاں سے نکل بھاگتے ہیں اور اس کو یہ لوگ اپنی ہوشیاری اور چالاکی سمجھتے ہیں حالانکہ یہ ان کی اپنی حماقت و محرومی ہے۔ بہرکیف جب یہ لوگ پھرگئے اپنے ارادہ واختیار سے تو اللہ نے ان کو دلوں کو پھیر دیا کہ اس کا قانون و دستور یہی ہے کہ جو لوگ نورحق و ہدایت سے منہ موڑلیتے ہیں ان کو محروم کردیا جاتا ہے اور وہ اپنے ارادہ واختیار سے جدھر جانا اور چلنا چاہتے ہیں ان کو ادھرہی چلتا کردیا جاتا ہے۔ (نولہ ماتولیٰ ) کے ضابطہ واصول کا تقاضایہی ہے اور یہی دستور خداوندی اور سنت الہٰی ہے۔ سو ایسے لوگ اپنی بدبختی اور سوء اختیار کی بنا پر دستور خداوندی کی زد میں ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 225 اصل علم وہی ہے جو انسان کو حق اور حقیقت سے آگاہ کرے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اپنی اسی بدنیتی اور خبث باطنی کی بنا پر یہ لوگ سمجھتے نہیں حق اور حقیقت کو اور ظاہر ہے کہ جب ان کی نیت ہی صحیح نہیں اور یہ غور و فکر سے کام لیتے ہی نہیں تو پھر انہیں حق اور حقیقت سمجھ آئے ہی کس طرح ؟۔ سبحان اللہ۔ قرآن پاک کس طرح غور و فکر سے کام لینے کی ترغیب جگہ جگہ اور طرح طرح سے دے رہا ہے مگر اس کے باوجودآج کا مسلمان ہے کہ حق و حقیقت کی طلب وتلاش سے غافل و لاپرواہ ہے اور اس حدتک کہ اس کا مقصدومشن بطن وفرج کی شہوت پرستی کے سواکچھ رہ ہی نہیں گیا۔ الاماشآء اللہ۔۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو اصل میں علم وہی ہے جو انسان کو راہ حق و حقیقت سے آگاہ کرے ورنہ انسان سراسر اندھیرے میں ہے، خواہ کہنے کو اور ظاہر کے اعتبار سے اس نے کتنی ہی ڈگریاں کیوں نہ اٹھا رکھی ہوں سو جو لوگ اپنے دل ودماغ کی صلاحیتوں سے خداوند قدوس کی تنبیہات کے بعد بھی کام نہیں لیتے وہ محروم کے محروم رہتے ہیں ان کی صلاحیتوں کو قانون قدرت کے مطابق ادھرہی موڑ دیا جاتا ہے جدھرکا رخ وہ خود کرتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ ہولناک انجام سے ہمیشہ ہمیش کے خسارے میں مبتلا ہوجاتے ہیں جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا (نولہ ماتولی ونصلہ جہنم وساءت مصیرا) (النساء : 115) کہ یہاں پر سودا جبرو اکراہ کا نہیں بلکہ اپنی رضاء ورغبت کا ہے سو انسان کے بناؤ اور بگاڑ کا اصل تعلق خود اس کے اپنے قلب وباطن سے ہے۔ واباللہ التوفیق لمایحب ویریدوعلیٰ مایحب ویرید، وہوالہادی الیٰ سواء السبیل۔
Top