Kashf-ur-Rahman - At-Tawba : 127
وَ اِذَا مَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ نَّظَرَ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ١ؕ هَلْ یَرٰىكُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوْا١ؕ صَرَفَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ
وَاِذَا مَآ : اور جب اُنْزِلَتْ : اتاری جاتی ہے سُوْرَةٌ : کوئی سورة نَّظَرَ : دیکھتا ہے بَعْضُھُمْ : ان میں سے (کوئی ایک) اِلٰى : کو بَعْضٍ : بعض (دوسرے) هَلْ : کیا يَرٰىكُمْ : دیکھتا ہے تمہیں مِّنْ اَحَدٍ : کوئی ثُمَّ : پھر انْصَرَفُوْا : وہ پھرجاتے ہیں صَرَفَ : پھیر دئیے اللّٰهُ : اللہ قُلُوْبَھُمْ : ان کے دل بِاَنَّھُمْ : کیونکہ وہ قَوْمٌ : لوگ لَّا يَفْقَهُوْنَ : سمجھ نہیں رکھتے
اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو یہ اپنے مخصوص انداز میں ایک دوسرے کو دیکھنے لگتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے تم کو کوئی دیکھ تو نہیں رہا پھر وہ نظر بچا کر واپس چلے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو پھیر دیا ہے کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ سے کام نہیں لیتے۔
127 اور جب سورت نازل کی جاتی ہے تو یہ اپنے مخصوص انداز میں ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں اور آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے تم کو کوئی دیکھ تو نہیں رہا اور آنکھ بچا کر نکل جاتے اور واپس چلے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس پھرجانے کی وجہ سے ان کے قلوب ہی کو پھیر دیا ہے کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ سے کام نہیں لیتے اور محض بےسمجھ واقع ہوئے ہیں۔ یعنی سورت نازل ہوئی اور انہوں نے اس نئی سورت کو سنا اور مجلس نبوی ﷺ سے اٹھ جانے کی ٹھہرائی اور چاہا کہ اس طرح واپس ہوں کہ کوئی مسلمان ہم کو نہ دیکھے کبھی پیغمبر سے لگائی بجھائی کردے اس کی سزا یہ ملی کہ دل ہی پھرگئے اور قرآن کریم کو سمجھنے کی صلاحیت ہی مسخ ہوگئی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتی ہیں یعنی کلام اللہ میں جہاں عیب آئے منافقوں کے وہ آپس میں دیکھتے ہیں کہ مجلس میں کسی نے ہم کو پرکھا نہ ہو پھر شتاب اٹھ جاتے ہیں۔ 12
Top