Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 127
وَ اِذَا مَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ نَّظَرَ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ١ؕ هَلْ یَرٰىكُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوْا١ؕ صَرَفَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ
وَاِذَا مَآ : اور جب اُنْزِلَتْ : اتاری جاتی ہے سُوْرَةٌ : کوئی سورة نَّظَرَ : دیکھتا ہے بَعْضُھُمْ : ان میں سے (کوئی ایک) اِلٰى : کو بَعْضٍ : بعض (دوسرے) هَلْ : کیا يَرٰىكُمْ : دیکھتا ہے تمہیں مِّنْ اَحَدٍ : کوئی ثُمَّ : پھر انْصَرَفُوْا : وہ پھرجاتے ہیں صَرَفَ : پھیر دئیے اللّٰهُ : اللہ قُلُوْبَھُمْ : ان کے دل بِاَنَّھُمْ : کیونکہ وہ قَوْمٌ : لوگ لَّا يَفْقَهُوْنَ : سمجھ نہیں رکھتے
اور جب کوئی سورة نازل ہوتی ہے (جس میں منافقوں کا ذکر ہوتا ہے) تو وہ آپس میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے ہیں کہ تم پر کسی کی نگاہ تو نہیں ؟ پھر منہ پھیر کر چل دیتے ہیں اللہ نے ان کے دل ہی پھیر دیئے کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ بوجھ سے کورے ہیں
آیت 127 ، 128: انسانیت کے ساتھ محسن انسانیت کی شفقت و محبت ، رحمت و مودت کا بیان : 164: فرمایا : ” تمہارے پاس ایک رسول آگیا جو تم ہی میں سے ہے۔ “ مطلب یہ ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کسی غیر قوم یا غیر وطن کے انسان نہیں جن پر پورا اعتماد نہ کیا جاسکتا ہو بلکہ وہ تم ہی میں سے ایک انسان ہیں تم ان کے حسب و نسب ، کردار و اخلاق ، اندرونی اور بیرونی زندگی کے ہر ہر حال سے واقف ہو اور ان کی امانت و دیانت کے معترف ہو اور آپ ﷺ کی کوئی چیز تم پر پوشیدہ نہیں ، آپ ﷺ کا بچپن ، جوانی اور ادھیڑ عمر سب سے تم اچھی طرح واقف ہو۔ سوال یہ ہے کہ ” کم “ کی ضمیرجمع مخاطب دونوں جگہ کس کی جانب ہے ؟ یعنی رسول اللہ ﷺ کس کے درمیان آئے ہیں ؟ بعض نے کہا کہ مخاطب عرب ہیں کہ آپ ﷺ اہل عرب کے درمیان بھیجے گئے لیکن قول محقق یہ ہے کہ خظاب ساری نوع انسانی سے ہے کیونکہ آپ ﷺ کی بعثت تنہا عرب کی جانب نہیں بلکہ سارے عالم کی جانب تھی۔ ایک بات زیر نظر آیت میں یہ سمجھائی گئی ہے کہ مشرک قوموں اور مشرک مزاج گروہوں کی سمجھ میں ہی نہیں آتا تھا کہ منصب رسالت پر کوئی بشر کیسے مامور ہوسکتا ہے۔ قوم کے افراد کو تکلیف ہو تو مضطرب ہوجاتے ہیں : 165: فرمایا ” تمہارا رنج و کلفت میں پڑنا اس پر بہت شاق گزرتا ہے۔ “ انسانیت کے ساتھ محسن انسانیت کی شفقت و محبت کا یہ عالم ہے کہ کسی فرد کو کوئی تکلیف ہو تو وہ مضطرب و بےچین ہوجاتے ہیں اور جب تک اس کی تکلیف دور نہ ہو برابر بےچین رہتے ہیں۔ کسی فرد کی بھوک ، پیاس اور کسی طرح کی تنگی و مصیبت ان کے دکھ کا باعث ہوتی ہے۔ یتامی و مساکین اور بیوگان کی تکلیف دور کر رنے میں وہ ہر وقت فعال رہتے ہیں اور پریشان حال کے لئے وہ ملجا و ماویٰ ہیںّ وہی تو ہیں جو قوم کی ترقی کے لئے اپنی جان و جو کھوں میں ڈالنے کے لئے تیار رہتے ہیں : 166: فرمایا : ” وہ تمہاری بھلائی کا بڑا ہی خواہش مند ہے۔ “ وہی ہیں جن کے دل میں یہی ایک جذبہ موجزن ہے کہ قوم کے حالات اچھے ہوجائیں اور دنیوی ترقی کے ساتھ اخروی مصائب و تکالیف سے بھی بچ جائے اور قوم زیادہ سے زیادہ ترقی کرے لیکن یہ ترقی ایسی نہ ہو کہ جس سے دناا تو ان کی سنور جائے آخرت اگرچہ برباد ہو ، نہیں وہ دنیا کی ترقی کے ساتھ آخرت کی کامیابی کو ضروری اور لازمی قرار دیتے ہیں بلکہ آخرت کو دنیا پر ترجیح دیتے ہیں اور اسی نظریہ پر قائم رہنے کے لئے وہ ہر وقتت اپنی جان جو کھوں میں ڈالنے کے لئے تیار رہتے ہیں اور ان کو یہ فکر دن ہو یا رات ہر وقت بر چین رکھتی ہے۔ وہی ہیں جن کو اپنی جان کی کوئی فکر نہیں دوسروں کی حرص ان میں کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے اس لئے سارے انسانوں کا غم ان کو یکساں ہے۔ وہ اگر ماننے والوں سے محبت کرتے ہیں تو مخالفین کے لئے اللہ کی رحمت ہیں۔ داعی اسلام دعوت اسلام کے ساتھ منسلک ہونے والوں کے لئے رؤف و رحیم ہیں : 167: فرمایا : ” وہ مومنوں کے لئے شفقت رکھنے والا اور محبت کرنے والا ہے۔ “ یعنی وہ لوگ جو نبی اعظم و آخر ﷺ کے لائے ہوئے نظام اسلام کے ساتھ منسلک ہوجاتے ہیں ان کے لئے آپ ﷺ کے دل میں رافت و رحمت کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے اور وہ ان کے لئے سراپا رحمت بن جاتے ہیں۔ کسی انسان کو اپنی اولاد کی کامیابی و کامرانی کی اتنی فکر نہیں جتنی کہ نبی رحمت ﷺ کے دل میں اپنی امت کے لئے ہے۔ ان کے بس میں ہو تو پوری دنیا میں ایک بھی انسان ایسا نہ رہے جو دین و دنیا میں کامیاب نہ ہو اور خصوصاً جہنم کی آگ سے بچانے کی فکر تو اس قدر ہے کہ اس میں دن رات گھل رہے ہیں ۔ آپ ﷺ کی سرگزشت بلاشبہ اپنے اندر ایک جذب اور دل ربائی رکھتی ہے جس سے قوم کے اندر والہانہ عشق پیدا ہوتا ہے اس کی تفصیل بہت لمبی ہے جس کے لئے صفحات درکار ہیں۔
Top