Mufradat-ul-Quran - Al-A'raaf : 127
وَ اِذَا مَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ نَّظَرَ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ١ؕ هَلْ یَرٰىكُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوْا١ؕ صَرَفَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ
وَاِذَا مَآ : اور جب اُنْزِلَتْ : اتاری جاتی ہے سُوْرَةٌ : کوئی سورة نَّظَرَ : دیکھتا ہے بَعْضُھُمْ : ان میں سے (کوئی ایک) اِلٰى : کو بَعْضٍ : بعض (دوسرے) هَلْ : کیا يَرٰىكُمْ : دیکھتا ہے تمہیں مِّنْ اَحَدٍ : کوئی ثُمَّ : پھر انْصَرَفُوْا : وہ پھرجاتے ہیں صَرَفَ : پھیر دئیے اللّٰهُ : اللہ قُلُوْبَھُمْ : ان کے دل بِاَنَّھُمْ : کیونکہ وہ قَوْمٌ : لوگ لَّا يَفْقَهُوْنَ : سمجھ نہیں رکھتے
اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ بھلا تمہیں کوئی دیکھتا ہے ؟ پھر پھرجاتے ہیں۔ خدا نے انکے دلوں کو پھیر رکھا ہے کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ سمجھ سے کام نہیں لیتے۔
وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ نَّظَرَ بَعْضُھُمْ اِلٰى بَعْضٍ۝ 0 ۭ ہَلْ يَرٰىكُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوْا۝ 0 ۭ صَرَفَ اللہُ قُلُوْبَھُمْ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ۝ 127 سُّورَةُ المنزلة الرفیعة، وسُورُ المدینة : حائطها المشتمل عليها، وسُورَةُ القرآن تشبيها بها لکونه محاطا بها إحاطة السّور بالمدینة، أو لکونها منزلة کمنازل القمر، ومن قال : سؤرة فمن أسأرت، أي : أبقیت منها بقيّة، كأنها قطعة مفردة من جملة القرآن وقوله : سُورَةٌ أَنْزَلْناها [ النور/ 1] ، السورۃ کے معنی بلند مرتبہ کے ہیں ۔ اور سورة المدینۃ کے معنی شہر پناہ کے ہیں اور سورة القرآن ( قرآن کی سورت ) یا تو سور المدینۃ سے ماخوذ ہے کیونکہ سورة بھی شہر پناہ کی طرح قرآن کا احاطہ کئے ہوئے ہیں اس لئے انہیں سورة القرآن کہا جاتا ہے اور یا سورة بمعنی مرتبہ سے مشتق ہے ، اور سورة بھی مناز ل قمر کی طرح ایک منزلۃ ہے اس لئے اسے سورة کہا جاتا ہے اور یہ دونوں اشتقاق اس وقت ہوسکتے ہیں جب اس میں واؤ کو اصلی مانا جائے لیکن اگر اسے اصل میں سورة مہموز مانا جائے تو یہ اسارت سے مشتق ہوگا جس کے معنی کچھ باقی چھوڑ دینے کے ہیں اور سورة بھی چونکہ قرآن ن کا ایک ٹکڑا اور حصہ ہوتی ہے ۔ اس لئے اسے سورة کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ سُورَةٌ أَنْزَلْناها[ النور/ 1] یہ ایک ) سورة ہے جسے ہم نے نازل کیا میں سورة سے مراد احکام وحکم ہیں۔ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب/ 53] أي : منتظرین، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں بعض بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] ( ب ع ض ) بعض الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ هَلْ : حرف استخبار، إما علی سبیل الاستفهام، وذلک لا يكون من اللہ عزّ وجلّ : قال تعالی: قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام/ 148] وإمّا علی التّقریر تنبيها، أو تبكيتا، أو نفیا . نحو : هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم/ 98] . وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] ، فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] كلّ ذلک تنبيه علی النّفي . وقوله تعالی: هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة/ 210] ، لْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 33] ، هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف/ 66] ، هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ/ 33] ، هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء/ 3] قيل : ذلک تنبيه علی قدرة الله، و تخویف من سطوته . ( ھل ) ھل یہ حرف استخبار اور کبھی استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جیسے قرآن پاک میں ہے : هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام/ 148] کہدو کہ تمہارے پاس کوئی سند ہے اگر ہے تو اسے ہمارے سامنے نکالو ۔ اور کبھی تنبیہ تبکیت یا نفی کے لئے چناچہ آیات : ۔ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم/ 98] بھلا تم ان میں سے کسی کو دیکھتے ہو یار کہیں ان کی بھنکسنتے ہو ۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] بھلا ئم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھو کیا تجھے ( آسمان میں ) کوئی شگاف نظر آتا ہے ۔ میں نفی کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ اور آیات : ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة/ 210] کیا یہ لوگ اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان پر خدا کا عذاب ) بادل کے سائبانوں میں نازل ہو اور فرشتے بھی اتر آئیں ۔ ھلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 33] یہ اس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف/ 66] یہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ قیامت هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ/ 33] یہ جیسے عمل کرتے ہیں ویسا ہی ان کو بدلہ ملے گا ۔ هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء/ 3] یہ شخص کچھ بھی ) نہیں ہے مگر تمہارے جیسا آدمی ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر تنبیہ اور اس کی سطوت سے تخو یف کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے : ۔ أحد أَحَدٌ يستعمل علی ضربین : أحدهما : في النفي فقط والثاني : في الإثبات . فأمّا المختص بالنفي فلاستغراق جنس الناطقین، ويتناول القلیل والکثير علی طریق الاجتماع والافتراق، نحو : ما في الدار أحد، أي : لا واحد ولا اثنان فصاعدا لا مجتمعین ولا مفترقین، ولهذا المعنی لم يصحّ استعماله في الإثبات، لأنّ نفي المتضادین يصح، ولا يصحّ إثباتهما، فلو قيل : في الدار واحد لکان فيه إثبات واحدٍ منفرد مع إثبات ما فوق الواحد مجتمعین ومفترقین، وذلک ظاهر الإحالة، ولتناول ذلک ما فوق الواحد يصح أن يقال : ما من أحدٍ فاضلین «1» ، کقوله تعالی: فَما مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حاجِزِينَ [ الحاقة/ 47] . وأمّا المستعمل في الإثبات فعلی ثلاثة أوجه : الأول : في الواحد المضموم إلى العشرات نحو : أحد عشر وأحد وعشرین . والثاني : أن يستعمل مضافا أو مضافا إليه بمعنی الأول، کقوله تعالی: أَمَّا أَحَدُكُما فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْراً [يوسف/ 41] ، وقولهم : يوم الأحد . أي : يوم الأول، ويوم الاثنین . والثالث : أن يستعمل مطلقا وصفا، ولیس ذلک إلا في وصف اللہ تعالیٰ بقوله : قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ [ الإخلاص/ 1] ، وأصله : وحد ولکن وحد يستعمل في غيره نحو قول النابغة : كأنّ رحلي وقد زال النهار بنا ... بذي الجلیل علی مستأنس وحد ( ا ح د ) احد کا لفظ دو طرح استعمال ہوتا ہے کبھی صرف نفی میں اور کبھی صرف اثبات میں ۔ نفی کی صورت میں ذوی العقول کے لئے آتا ہے اور استغراق جنس کے معنی دیتا ہے خواہ قلیل ہو یا کثیر مجتمع ہو یا متفرق جیسے ما فی الدار احد ( گھر میں کوئی بھی نہیں ہے ) یعنی نہ ایک ہے اور نہ دو یا دو سے زیادہ نہ مجتمع اور نہ ہی متفرق طور پر اس معنی کی بنا پر کلام مثبت میں اس استعمال درست نہیں ہے کیونکہ دو متضاد چیزوں کی نفی تو صحیح ہوسکتی ہے لیکن دونوں کا اثبات نہیں ہوتا جب فی الدار واحد کہا جائے تو ظاہر ہی کہ ایک اکیلے کا گھر میں ہونا تو ثابت ہوگا ہی مگر ساتھ ہی دو یا دو سے زیادہ کا بھی اجتماعا و افتراقا اثبات ہوجائے گا پھر احد کا لفظ چونکہ مافوق الواحد کی بھی نفی کرتا ہے اس لئے ما من احد فاضلین ۔ کہناصحیح ہوگا ۔ چناچہ قرآن میں ہے { فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ } ( سورة الحاقة 47) پھر تم میں سے کوئی بھی ہمیں اس سے روکنے والا نہ ہوگا ۔ کلام مثبت میں احد کا استعمال تین طرح پر ہوتا ہے (1) عشرات کے ساتھ ضم ہوکر جیسے احد عشر ( گیارہ ) احد وعشرون ( اکیس ) وغیرہ (2) مضاف یا مضاف الیہ ہوکر اس صورت میں یہ اول ( یعنی پہلا کے معنی میں ہوگا جیسے فرمایا : { أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا } ( سورة يوسف 41) یعنی تم میں سے جو پہلا ہے وہ تو اپنے آقا کو شراب پلایا کرے گا ۔ یوم الاحد ہفتے کا پہلا دن یعنی اتوار (3) مطلقا بطور وصف ہی ہوگا ( اور اس کے معنی ہوں گے یکتا ، یگانہ بےنظیر ، بےمثل ) جیسے فرمایا :۔ { قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ } ( سورة الإِخلَاص 1) کہو کہ وہ ( ذات پاک ہے جس کا نام ) اللہ ہے ۔ ایک ہے ۔ احد اصل میں وحد ہے لیکن وحد کا لفظ غیر باری تعالیٰ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ نابغہ نے کہا ہے ع ( بسیط) (10) کان رجلی وقد زال النھار بنا بذی الجلیل علی مستأنس وحددن ڈھلے وادی ذی الجلیل میں میری اونٹنی کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ جیسے میرا پالان بجائے اونٹنی کے اس گورخر پر کسا ہوا ہو جو تنہا ہو اور انسان کی آہٹ پاکر ڈر کے مارے تیز بھاگ رہا ہو ۔ صرف الصَّرْفُ : ردّ الشیء من حالة إلى حالة، أو إبداله بغیره، يقال : صَرَفْتُهُ فَانْصَرَفَ. قال تعالی: ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] ( ص ر) الصرف کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا یا کسی اور چیز سے بدل دینا ۔ محاور ہ ہے ۔ صرفتہ فانصرف میں نے اسے پھیر دیا چناچہ وہ پھر گیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] پھر خدا نے تم کو ان کے مقابلے سے پھیر کر بھگادیا ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] فقه الفِقْهُ : هو التّوصل إلى علم غائب بعلم شاهد، فهو أخصّ من العلم . قال تعالی: فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء/ 78] (ق ہ ) الفقہ کے معنی علم حاضر سے علم غائب تک پہچنچنے کے ہیں اور یہ علم سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء/ 78] ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے ۔
Top