Mafhoom-ul-Quran - Al-Qasas : 14
وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَ اسْتَوٰۤى اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًا١ؕ وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ
وَلَمَّا : اور جب بَلَغَ اَشُدَّهٗ : وہ پہنچا اپنی جوانی وَاسْتَوٰٓى : اور پورا (توانا) ہوگیا اٰتَيْنٰهُ : ہم نے عطا کیا اسے حُكْمًا : حکمت وَّعِلْمًا : اور علم وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نَجْزِي : ہم بدلہ دیا کرتے ہیں الْمُحْسِنِيْنَ : نیکی کرنے والے
اور جب موسیٰ جوانی کو پہنچے اور بھر پور جوان ہوگئے تو ہم نے ان کو علم اور حکمت عطا کیا اور ہم نیکوکاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔
ظلم کے خلاف جہاد ہجرت اور مدین میں قیام تشریح : جب سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) جوان ہوئے تو بڑے خوبصورت پڑھے لکھے باشعور ‘ پاکیزہ ‘ نیک ‘ نرم دل ‘ متقی اور پرہیزگار جوان تھے۔ ملک میں چاروں طرف پھیلا ہوا ظلم و ستم ان کو کسی صورت بھی اچھا نہ لگتا تھا۔ کیونکہ اس وقت کے حاکم اور وزراء کی پالیسی یہ تھی کہ رعایا کی بجائے اپنے تاج و تخت کی زیادہ فکر کی جائے تو اس کے لیے ان کو یہ پالیسی زیادہ پسند تھی کہ رعایا کو آپس میں کسی نہ کسی طرح لڑائے رکھو تاکہ وہ حکمرانوں کی زیادتیوں کی طرف نہ متوجہ ہوں اور نہ ہی احتجاج کریں بس آپس میں ہی لڑتے مرتے رہیں۔ اس لیے ملک میں امن وامان نام کی کوئی چیز نہ تھی اور خاص طور سے بنی اسرائیل کیونکہ باہر سے آکر یہاں آباد ہوئے تھے اس لیے ان پر تو حد سے زیادہ ظلم و زیادتی کی جاتی تھی سیدنا موسیٰ ان کو دیکھ کر بہت پریشان ہوتے تھے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں بتایا گیا ہے کہ غلطی سے ایک قبطی کا قتل ان سے ہوگیا تھا جو کہ شیطان کا کام ہی لگتا تھا۔ بہرحال آپ نے اس پر توبہ استغفار کیا مگر حکومت کی طرف سے پکڑ کے خوف سے آپ وہاں سے ہجرت کر گئے آگے ملاحظہ ہو :
Top