Ruh-ul-Quran - Ibrahim : 18
مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَمَادِ اِ۟شْتَدَّتْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ١ؕ لَا یَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰى شَیْءٍ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ
مَثَلُ : مثال الَّذِيْنَ : وہ لوگ كَفَرُوْا : جو منکر ہوئے بِرَبِّهِمْ : اپنے رب کے اَعْمَالُهُمْ : ان کے عمل كَرَمَادِ : راکھ کی طرح اشْتَدَّتْ : زور کی چلی بِهِ : اس پر الرِّيْحُ : ہوا فِيْ : میں يَوْمٍ : دن عَاصِفٍ : آندھی والا لَا يَقْدِرُوْنَ : انہیں قدرت نہ ہوگی مِمَّا : اس سے جو كَسَبُوْا : انہوں نے کمایا عَلٰي شَيْءٍ : کسی چیز پر ذٰلِكَ : یہ هُوَ : وہ الضَّلٰلُ : گمراہی الْبَعِيْدُ : دور
ان لوگوں کے اعمال کی تمثیل جن لوگوں نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا ایسے ہے جیسے راکھ کا ڈھیر ہو جسے سخت آندھی کے دن تند ہوا اڑا کے لے جائے، وہ نہ حاصل کرسکیں گے ان اعمال سے جو انھوں نے کمائے، کچھ بھی۔ یہی دور کی گمراہی ہے۔
مَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ اَعْمَالُہُمْ کَرَمَادِ نِ اشْتَدَّتْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ ط لاَ یَقْدِرُوْنَ مِمَّا کَسَبُوْا عَلٰی شَیْ ئٍ ط ذٰلِکَ ہُوَالضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ ۔ (سورۃ ابراھیم : 18) (ان لوگوں کے اعمال کی تمثیل جن لوگوں نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا ایسے ہے جیسے راکھ کا ڈھیر ہو جسے سخت آندھی کے دن تند ہوا اڑا کے لے جائے، وہ نہ حاصل کرسکیں گے ان اعمال سے جو انھوں نے کمائے، کچھ بھی۔ یہی دور کی گمراہی ہے۔ ) مشرکین کے اعمال کی تمثیل اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں خیر و شر کے دونوں جذبے ودیعت کیے ہیں۔ ماحول اور والدین جس جذبے کو جلا دینے کا سامان کرتے ہیں وہی جذبہ دوسرے جذبے پر غالب آجاتا ہے اور انسان کی زندگی اسی کی عکاس بن جاتی ہے۔ اور اگر شعور کی عمر کو پہنچ کر انسان وحی الٰہی کی رہنمائی کو قبول کرلیتا ہے تو اسے اسلامی زندگی نصیب ہوجاتی ہے۔ لیکن جو لوگ وقت کی روا روی میں یا ہَوائے نفس کی پیروی میں زندگی گزارتے ہیں ان میں اسلامی زندگی تو کبھی پیدا نہیں ہوتی البتہ کبھی کبھی عقل اور شعور ان کی دستگیری کرتے ہیں تو وہ انسانی بھلائی کے کاموں میں دلچسپی لینے لگتے ہیں۔ کبھی تو اس خیال سے کہ ان کی عقل انھیں رہنمائی دے رہی ہے اور کبھی شہرت اور نام کو زندہ رکھنے کی ہوس اور کبھی نیک نامی کو الیکشن میں کیش کرانے کی ضرورت ایسے کاموں کی داعی بنتی ہے۔ چناچہ کتنے ایسے خدا کے منکر یا غلط مذاہب کے ماننے والے ہمیں نظر آتے ہیں جنھوں نے بڑے بڑے رفاہی کام سرانجام دیے۔ اکثر یہ سوال اٹھتا ہے کہ ان لوگوں کے نیک اعمال کا کیا ہوگا، کیا انھیں اس کی کوئی جزاء ملے گی یا نہیں ؟ اس آیت کریمہ میں انھیں کے اعمال کی ایک مثال کے ذریعے وضاحت کی گئی ہے۔ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ان کے نیک اعمال راکھ کے ڈھیر کی مانند ہیں جن میں قبولیت کی کوئی چنگاری نہیں۔ اعمال کرنے والے اپنے تئیں بڑا سرمایہ جمع کرتے ہیں لیکن اس کی حیثیت راکھ کے ڈھیر سے زیادہ نہیں ہوتی۔ راکھ کا ڈھیر اس کے سوا اور کیا حیثیت رکھتا ہے کہ اس وقت تک ایک جگہ پڑا رہتا ہے جب تک اس پر کوئی تیز ہوا نہیں چلتی اور جس دن کوئی آندھی اٹھے اور اس کی تیز ہوا کا جھونکا اس کے اوپر سے گزر جائے تو وہ اسے اڑا کر نجانے کہاں کہاں بکھیر دیتا ہے۔ اب ان کا یہ سارا سرمایہ منتشرراکھ کے ذرے ہیں جن کی کوئی قدر و قیمت نہیں اور جس آندھی نے انھیں ذروں میں تبدیل کیا بلکہ انھیں راکھ کی صورت دی وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا ہوا کفر اور شرک ہے جس کی موجودگی میں کوئی عمل بھی نہ اپنی اصلی شکل اختیار کرتا ہے اور نہ اس کی قبولیت کا کوئی راستہ کھلتا ہے۔ ایسے اعمال چونکہ دنیا ہی کے لیے کیے جاتے ہیں اور دنیوی اغراض ہی سامنے ہوتی ہیں۔ اس لیے ایسے اعمال کو دنیوی ضرورتوں کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ نیک نامی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ الیکشن میں کیش کرائے جاسکتے ہیں، لوگوں کی رائے بدلنے میں موثر ثابت ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کے لیے چونکہ ایمان ضروری ہے، اخلاص ضروری ہے اور نیت کو ہر غیر خدا سے پاک کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے اس کے یہاں ایسے اعمال کی پذیرائی نہیں ہوتی، چاہے وہ اپنی شکل و صورت میں کیسے ہی دل پسند کیوں نہ ہوں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) نے بھی ایسے ہی کسی احساس کے تحت آنحضرت ﷺ سے پوچھا تھا کہ ابن جدعان نے اپنی زندگی میں بظاہر بڑے بھلے کام بھی کیے تھے، کیا اس کی بخشش نہیں ہوگی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا، نہیں۔ اس لیے کہ اس نے کبھی اپنے پروردگار سے یہ نہیں کہا تھا کہ یا اللہ مجھے بخش دے۔ اس کے یہ بھلے کام صرف نیک نامی کے حصول کے لیے تھے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اسے نیک نامی دے دی۔
Top