Baseerat-e-Quran - Ibrahim : 18
مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَمَادِ اِ۟شْتَدَّتْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ١ؕ لَا یَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰى شَیْءٍ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ
مَثَلُ : مثال الَّذِيْنَ : وہ لوگ كَفَرُوْا : جو منکر ہوئے بِرَبِّهِمْ : اپنے رب کے اَعْمَالُهُمْ : ان کے عمل كَرَمَادِ : راکھ کی طرح اشْتَدَّتْ : زور کی چلی بِهِ : اس پر الرِّيْحُ : ہوا فِيْ : میں يَوْمٍ : دن عَاصِفٍ : آندھی والا لَا يَقْدِرُوْنَ : انہیں قدرت نہ ہوگی مِمَّا : اس سے جو كَسَبُوْا : انہوں نے کمایا عَلٰي شَيْءٍ : کسی چیز پر ذٰلِكَ : یہ هُوَ : وہ الضَّلٰلُ : گمراہی الْبَعِيْدُ : دور
ان کافروں (کے اعمال) کی مثال اس راکھ جیسی ہے جس کو تیز آندھی اڑا کرلے گئی ہو۔ اسی طرح جو کچھ انہوں نے کمایا ہے انہیں ان میں سے کسی چیز پر قدرت حاصل نہ ہوگی یہی وہ گمراہی ہے جو ان کو (سچائی سے) بہت دور لے گئی۔
لغات القرآن آیت نمبر 18 تا 21 رماد راکھ۔ اشتدت تیز چلی۔ الریح ہوا۔ عاصف تیز آندھی۔ لایقتدرون وہ طاقت وقدرت نہیں رکھتے ہیں۔ کسبوا انہوں نے کمایا۔ یشآء وہ چاہتا ہے۔ یذھب وہ لے جائے۔ وہ جاتا ہے۔ خلق جدید نئی مخلوق ۔ برزوا وہ ظاہر ہوئے۔ وہ حاضر ہوں گے۔ الضعفوا (ضعیف) ، کمزور ۔ استکبروا انہوں نے تکبر کیا۔ بڑائی کی۔ تبع پیچھے ۔ تابع داری کرنا ۔ مغنون بچانے والے ، ہلکا کرنے والے۔ ھدنا اس نے ہمیں راستہ سمجھایا، بتایا ۔ اجزعنا کیا ہم گھبرائیں ، چلائیں محیص چھٹکارا پانے کی جگہ ۔ تشریح :- آیت نمبر 18 تا 21 قرآن مجید اور احادیث رسول ﷺ سے یہ بات ثابت ہے کہ انسان دوسرے انسانوں کی بھلائی کے لئے جو کام بھی کرتا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں وہ انتہائی قابل قدر ہے۔ اس پر بھی بدلہ دیا جائے گا لیکن فرق یہ ہے کہ اگر یہ نیک اور بھلے کام کوئی ایسا شخص کرے گا جو صاحب ایمان نہیں ہے تو اس کو اس کا اجر اسی دنیا میں دے دیا جائے گا۔ دولت، شہرت اور نیک نامی سے لوگ اس کی قدر کریں گے اور یہی اس کا بدلہ ہے لیکن اگر یہی نیک اعمال ایک ایسا شخص کرتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول پر مکمل یقین و ایمان رکھتا ہے تو اس کا اجر وثواب اس کو اس دنیا میں بھی ملے گا اور آخرت میں تو بہت زیادہ قدر ہوگی اور اس کا ثواب کئی گنا بڑھا کردیا جائے گا۔ فرمایا گیا ہے کہ وہ لوگ جو اپنے پروردگار کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور پھر بھلے کام بھی کرتے ہیں تو ان کے اعمال کی مثال اس راکھ کے ڈھیر کی طرح ہے جو دیکھنے میں بہت زیادہ نظر آتی ہے لیکن ہوا کا ایک طوفان یا آندھی اس کو اس طرح اڑا کر فضا میں بکھیر دیتی ہے کہ اس کا وجود ہی مٹ جاتا ہے ۔ اسی طرح ان کافروں کے کئے ہوئے بھلے کام ہیں کہ وہ بہت نظر اتٓے ہیں لیکن موت آتے ہی یہ سارے اعمال آخرت میں راکھ کا ڈھیر ثابت ہوں گے جن کا آخرت میں کوئی وجود نہیں ہوگا ۔ یہ لوگ اپنے نیک اعمال کے ساتھ جن غیر اللہ کی عبادت و بندگی کرتے ہیں جن کے متعلق ان کا یہ گمان ہے کہ وہ ان کو قیامت کے دن اللہ کے عذاب سے بچا لیں گے جب یہ بتوں کو ماننے والے کمزور لوگ قیامت کے دن ان سے درخواست کریں گے کہ ان کو عذاب الٰہی سے بچا لیں تو وہ تکبر اور غرور کے پیکر اپنے ماننے والوں سے یہی کہیں گے کہ اگر ہمیں کوئی راستہ ملا تو ہم تمہیں ضرور بتا دیں گے لیکن ایسا لگتا ہے کہ آج کے دن نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ البتہ ہم اس بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتے۔ فرمایا کہ یہی وہ چیز ہے جو ان کو ہدایت سے بہت دور کئے ہوئے تھی کیونکہ ان کا سہارا ان پر تھا جو یہ کہہ اٹھیں گے کہ آج کے دن ہمارا رونا اور چلانا بھی ہمارے کام نہ آسکے گا۔ ہم تو خود اس عذاب سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے نجات پانا ممکن نظر نہیں آرہا ہے۔ فرمایا کہ یہ اللہ کا کرم ہے کہ کفار و مشرکین کے کفر و شرک کے باوجود اللہ ان کے وجود کو گوارا فرما رہا ہے۔ اگر وہ چاہتا تو ان لوگوں کو ختم کر کے کوئی دوسری مخلوق یا قوم کو لے آتا جو اس کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ لیکن نافرمانیوں کے باوجود اللہ ان کو ان کے ٹھکانوں پر برقرار رکھے ہوئے ہے۔ لیکن اگر انہوں نے نافرمانیوں کا یہ سلسلہ اسی طرح قائم رکھا تو پھر ان کے اعمال اور وجود کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا جائے گا جس کی نہ کوئی قیمت ہوتی ہے نہ وزن ہوتا ہے اور نہ یہ راکھ کا ڈھیر کسی کام کا ہوتا ہے۔ کفار مکہ باہر سے آنے والے حجاج اور زائرین کی راحت و آرام کے لئے مہمان نوازی اور کھانے پینے کا انتظام کرتے تھے اور یہ سجھتے تھے کہ صرف حجاج اور زائرین کے لئے پانی کی سبلیں اور کھانے پینے کا انتظام کردینا ان کی نجات کا ذریعہ بن جائے گا۔ ان آیات میں اسی کا جواب دیا گیا ہے کہ حجاج وغیرہ کے لئے یہ خدمات بھی اللہ کے ہاں قبول ہیں اور ان کا صلہ دنیا ہی میں دیدیا جائے گا۔ لیکن اگر یہی اعمال اللہ اور اس کے رسول پر ایمان کے ساتھ کئے جائیں تو ان کا ثواب بہت زیادہ عطا کیا جائے گا دنیا میں بھی اور آخرت بھی۔ لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کفر و شرک کے ساتھ ساتھ یہ نیک اعمال اس کی نجات کا باعث ہوں گے تو اس کو اس غلط فہمی کو دل سے نکال دینا چاہئے کیونکہ نہ یہ اعمال اس کا ساتھ دیں گے اور نہ وہ سہارے اس کے کام آئیں گے جن پر بھروسہ کر کے وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کو اللہ کے عذاب سے بچا لیا جائے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل ایمان کے اعمال کا بدلہ ان کو اس دنیا میں بھی دیا جائے گا لیکن اگر ان کو ان کے نیک اور بھلے کاموں کا بدلہ اس دنیا میں نہ ملے تو قیامت میں ان کو اتنا اجر وثواب ملے گا جس کا وہ اس دنیا میں تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایمان کے ساتھ عمل صالح اور دنیا اور آخرت میں بھلائیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Top