Ruh-ul-Quran - Al-Hijr : 90
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهٖ فَظَلَمُوْا بِهَا١ۚ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ
ثُمَّ : پھر بَعَثْنَا : ہم نے بھیجا مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد مُّوْسٰي : موسیٰ بِاٰيٰتِنَآ : اپنی نشانیوں کے ساتھ اِلٰى : طرف فِرْعَوْنَ : فرعون وَمَلَا۟ئِهٖ : اور اس کے سردار فَظَلَمُوْا : تو انہوں نے ظلم (انکار کیا) بِهَا : ان کا فَانْظُرْ : سو تم دیکھو كَيْفَ : کیا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والے
اسی طرح ہم نے اتارا تھا ان تقسیم کرلینے والوں پر۔
کَمَا اَنْزَلْنَا عَلَی الْمُقْتَسِمِیْنَ ۔ الَّذِیْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِیْنَ ۔ (سورۃ الحجر : 90۔ 91) (اسی طرح ہم نے اتارا تھا ان تقسیم کرلینے والوں پر۔ جنھوں نے قرآن کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے رکھ دیے۔ ) مقتسمین سے کیا مراد ہے مفسرین نے ان آیتوں کے مختلف مطالب بیان کئے ہیں۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اس سے مراد اشرافِ قریش ہیں۔ انھوں نے قرآن کریم کا راستہ روکنے اور لوگوں کو انحضرت ﷺ سے بدگمان کرنے کے لیے عجیب طریقہ اختیار کیا۔ ولید بن مغیرہ کو اس سازش کا سرغنہ ٹھہرایا گیا۔ اس نے ایک اچھی خاصی تعداد میں لوگوں کی ڈیوٹیاں لگائیں اور ان کو مکہ کی مختلف وادیوں میں پھیلا دیا۔ ممکن ہے یہ انتظام حج کے دنوں میں کیا گیا ہو۔ ہر شخص کو ہدایت کی گئی کہ اس کی ملاقات جس اجنبی سے ہو اسے نبی کریم ﷺ اور آپ ﷺ پر جو قرآن اترتا ہے دونوں کے بارے میں غلط فہمی میں مبتلا کیا جائے۔ کوئی یہ کہے کہ محمد ﷺ دیوانے ہوگئے ہیں، کوئی انھیں مجنون قرار دے، کوئی انھیں شاعر کہے، کوئی انھیں کاہن کے طور پر متعارف کرائے۔ اس طرح سے ہر شخص کوئی ایسی بات لوگوں کے ذہنوں میں ڈالے جس سے لوگ بدگمان ہو کر اس کے قریب جانے سے بھی گریز کریں۔ یہ انھوں نے جس طرح علاقے تقسیم کرکے مختلف عنوانات سے آنحضرت کی مخالفت کا کام اپنے اپنے ذمہ لیا اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ انھوں نے اپنے تئیں قرآن کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔ علامہ قرطبی کے خیال میں مقتسمین سے مراد یہ لوگ ہیں، عاص بن وائل، عتبہ، شیبہ، ابوجہل، ابوالبختری، نضربن حارث، امیہ بن خلف اور منبہ بن الحجاج۔ بعض دیگر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ یہ آیت کریمہ اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ ہم نے یہ قرآن کریم اسی طرح آنحضرت ﷺ پر نازل کیا ہے جس طرح ہم اس سے پہلے اہل کتاب پر ان کی کی کتابیں نازل کرچکے ہیں۔ ہر امت کی طرف اترنے والی کتاب ان کا قرآن ہی تھی۔ چناچہ انھوں نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔ اہل تورات نے تورات کے ٹکڑے کئے اور اہل انجیل نے انجیل کے ٹکڑے کئے۔ ٹکڑے کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ اس کی کسی آیت کو مانا اور کسی کا انکار کردیا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب بھی کوئی کتاب اترتی ہے وہ مکمل انسانی زندگی کی رہنما بن کے آتی ہے۔ اس میں زندگی کے ہر شعبے کے بارے میں ہدایات دی جاتی ہیں، لیکن قومیں جب بگڑتی ہیں تو وہ ان ہدایات کو قبول کرتی ہیں جو ان کے لیے مفید مطلب ہوتی ہیں اور جن کے لیے کوئی بڑی قربانی نہ دینا پڑے اور باقی کتاب کو ماننے سے انکار کردیتی ہیں۔ یہود نے کسی حد تک عبادات اور کسی حد تک عائلی قوانین کو تسلیم کیا، لیکن حدود اللہ تعالیٰ کو ماننے سے انکار کردیا۔ یہی حال اہل انجیل کا بھی تھا اور آج مسلمانوں کا حال بھی اس سے مختلف نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مکمل دین عطا فرمایا۔ قرآن و سنت کی شکل میں زندگی کے ہر شعبے سے متعلق ہدایات عطا فرمائیں۔ عبادات کا ایک نظام بخشا۔ شخصی قوانین بھی دیے اور پبلک قوانین بھی۔ اسلامی معاشرتی اصول بھی سکھائے اور اسلامی معیشت کی بنیادیں بھی فراہم کیں۔ انسانوں میں مختلف انواع کو حقوق و فرائض سے بہرہ ور کیا۔ تمدنی اور تہذیبی مسائل کو سلجھایا۔ سیاست کے طوراطوار سکھائے، نظام عدل دیا اور اس کے تمام شعبے قائم کرکے دکھائے۔ حکومت اور ریاست کی صحیح تعریف کی اور اس کے قیام کے طریقے سکھائے۔ سیاست کے آداب واضح کئے اور تعلیم کا منہج اور مقصد واضح کیا۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا باقی نہیں رہا جس کے لیے رہنمائی نہ دی ہو۔ لیکن مسلمانوں نے اسلام سے نظام عبادت، شخصی قوانین اور بعض معاشرتی قوانین کے سوا قرآن و سنت کی ہر طرح کی رہنمائی کا بائیکاٹ کردیا۔ حدود اللہ تعالیٰ پامال ہو کے رہ گئے۔ زندگی کا ہر شعبہ اسلام کی روشنی سے محروم ہو کر تاریکیوں میں ڈوب گیا۔ وہ امت مسلمہ جو کبھی تاریخ کی سب سے بڑی قوت تھی آج ایک تماشا بن کے رہ گئی ہے۔ چناچہ اہل کتاب کے اسی رویئے کا ذکر کرتے ہوئے مسلمانوں کو توجہ دلائی گئی تھی اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتَابْ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضِ کیا تم کتاب کے اس ایک حصے کو مانتے ہو اور کتاب کے دوسرے حصے کا انکار کردیتے ہو، جو قوم بھی ایسا کرتی ہے وہ دنیا میں رسوا ہوتی ہے اور آخرت میں بدترین عذاب میں ڈالی جائے گی۔ پیش نظر آیت کریمہ میں بھی ممکن ہے مسلمانوں کو اس کی طرف توجہ دلائی گئی ہو۔
Top