Ahsan-ut-Tafaseer - Al-A'raaf : 103
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهٖ فَظَلَمُوْا بِهَا١ۚ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ
ثُمَّ : پھر بَعَثْنَا : ہم نے بھیجا مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد مُّوْسٰي : موسیٰ بِاٰيٰتِنَآ : اپنی نشانیوں کے ساتھ اِلٰى : طرف فِرْعَوْنَ : فرعون وَمَلَا۟ئِهٖ : اور اس کے سردار فَظَلَمُوْا : تو انہوں نے ظلم (انکار کیا) بِهَا : ان کا فَانْظُرْ : سو تم دیکھو كَيْفَ : کیا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والے
پھر ان پیغمبروں کے بعد ہم نے موسیٰ کو نشانیاں دے کر فرعون اور اسکے اعیان سلطنت کے پاس بھیجا تو انہوں نے ان کے ساتھ کفر کیا سو دیکھ لو کہ خرابی کرنے والوں کا کیا انجام ہوا۔
(103 ۔ 126) ۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح ( علیہ السلام) اور ہود ( علیہ السلام) اور صالح ( علیہ السلام) اور لوط ( علیہ السلام) اور شعیب ( علیہ السلام) کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں حضرت موسیٰ اور ان کے معجزوں کا ذکر فرمایا ہے معجزہ ایک ایسی عادت سے باہر عاجز کرنے والی چیز کو کہتے ہیں جس کا ظہور بدوں تائید غیبی کے نہ ہو سکے اور خلقت اس جیسی چیز کے ظاہر کردینے سے عاجز ہو معجزہ اور جادو میں یہ فرق ہے کہ معجزہ میں عادت سے باہر جو چیز خدا تعالیٰ انبیاء کی تصدیق کے طور پر پیدا کرتا ہے وہ اصلی چیز ہوتی ہے مثلا حضرت صالح کے معجزہ سے جو اونٹنی پتھر میں سے پیدا ہوئی وہ دراصل اونٹنی ہی تھی لوگوں نے مدت تک اس کا دودھ پیا اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) جو مردہ کو زندہ کرتے تھے وہ درحقیقت وہی مردہ شخص ہوتا تھا اور حضرت کی انگلیوں سے جو پانی کا چشمہ بہا وہ دراصل پانی ہی تھا لوگوں نے پیا اور ان کی پیاس بجھی۔ جادو میں ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی غریب جادوگر ٹھیکریوں کے روپے بناوے تو درحقیقت وہ روپے ہوجاویں ایسا ہوتا تو کوئی جادوگر دنیا میں تنگ حال کیوں نظر آتا اور یہ جادوگر محتاجوں کی طرح فرعون سے اپنے جادو کے کام کا مزدوری کیوں مانگتے جادور کی اصل اتنی ہی ہے کہ لوگوں کے دیکھنے میں جادو کے اثر سے ٹھیکریاں روپے نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ ٹھیکریاں ہی رہتی ہیں۔ جس طرح حضرت نوح ( علیہ السلام) کے معجزے سے چند آدمیوں کے سوا ساری دنیا طوفان سے ہلاک ہوگئی حضرت ہود ( علیہ السلام) کے معجزہ سے آندھی نے اور حضرت صالح ( علیہ السلام) کے معجزہ سے زلزلہ نے اور حضرت شعیب ( علیہ السلام) کے معجزہ سے سنگ باری نے شہر کے شہر غارت کردئے یہ اثر اور زور جادو میں ہوتا تو بادشاہاں زمانہ کی فوج کو ہلاک کر کے بہت سے جادوگر شہنشاہ بن جاتے غرض کئی سو اونٹوں پر اپنی لکڑیاں اور سامان لاد کر فرعون کے وقت کے جادو گر جو لائے تھے جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت موسیٰ کی ایک لکڑی نے ان کا سب جادو درہم برہم کردیا اور یہ بھی انہوں نے دیکھا کہ حضرت موسیٰ کی لکڑی کا اثر جادونما ہوتا تو وہ کئی سو اونٹ کے بوجھ کی اصل لکڑیاں اور رسیاں تو آخر باقی رہ جائیں جب ان سب کو اس لکڑی نے نگل لیا تو یہ جادو کے اثر سے بڑھ کر ایک چیز ہے اس لئے فورا وہ سب جادوگر ایسے پکے مسلمان ہوگئے کہ پھر فرعون کے ڈرانے سے بھی نہ ڈرے یہ بھی ایک حکمت الہی ہے کہ اس وقت کی قوم میں جس چیز کا کمال مشہور تھا نبی وقت کو اسی قسم کا معجزہ دے کر اللہ تعالیٰ نے بھیجا تاکہ نبی کی نبوت کا لوگوں کو جلدی یقین ہوجائے مثلا فرعون کے زمانہ میں جادو کا بڑا زور تھا جادو سیکھنے کی جاگیریں لوگوں کو فرعون دیتا تھا یہ وہی جاگیردار جادوگر تھے جن کو دیہات سے فرعون نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے مقابلہ کے لئے بلوایا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو اسی قسم کا معجزہ دیا حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے زمانہ میں یونانی طب کا بڑا زور تھا اس لئے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو کوڑھی۔ مادرزا داندھے کے اچھا کرنے مردے کے جلانے کا معجزہ دیا جس سے حکیم عاجز ہوگئے حضرت کے وقت میں فصاحت وبلاغت عرب کا بڑا زور تھا اس لئے قرآن شریف میں وہی معجزہ رکھا گیا پہلے اہل عرب سے کہا گیا کہ دس سورتیں قرآن شریف کی فصاحت اور بلاغت کے موافق بناؤ جب دس سورتوں سے وہ عاجز ہوگئے تو ایک ہی سورة کے بنانے کو کہا گیا تھا آخرعاجز ہوگئے اور کچھ نہ بن سکا حاصل کلام یہ ہے کہ ان آیتوں کی شروع میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے نبی ہونے کا اور ان کو معجزات کے دئے جانے کا ذکر ہے اور پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون سے مناظرہ ہو کر اس مناظرہ میں فرعون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے معجزہ کا جو طلب گار ہوا ہے اس کا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عصا کے اژدہا بن جانے کا اور یدبیضا کا معجزہ جب فرعون کو دکھایا اور اس نے اس کو جادو بتلایا اس کا پھر جادوگروں اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ کا اور جادوگروں کا مقابلہ سے عاجز ہو کر شریعت موسوی کے تابع ہوجانے کا یہ سب ذکر ان آیتوں میں مختصر طور پر ہے سورة طہ اور سورة شعراء میں اس قصہ کی تفصیل زیادہ آوے گی۔ سورة بقر میں گذر چکا ہے کہ اسرائیل حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو اور بنی اسرائیل ان کی اولاد کو کہتے ہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ سے چار سو برس پہلے اولاد یعقوب میں سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی وفات کے بعد بنی اسرائیل مصر میں ذلیل حالت سے رہتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ کا حکم حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو یہ تھا کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) مصر سے بنی اسرائیل کو نکال کر ان کے قدیمی وطن نیک شام میں انہیں آباد کریں اسی واسطے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جہاں فرعون سے اور باتیں کیں وہاں یہ بھی فرمایا فارسل معی بنی اسرائیل جس کا مطلب اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کے حکم کی تعمیل ہے جس کا ذکر اوپر گذرا۔
Top