Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 103
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهٖ فَظَلَمُوْا بِهَا١ۚ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ
ثُمَّ : پھر بَعَثْنَا : ہم نے بھیجا مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد مُّوْسٰي : موسیٰ بِاٰيٰتِنَآ : اپنی نشانیوں کے ساتھ اِلٰى : طرف فِرْعَوْنَ : فرعون وَمَلَا۟ئِهٖ : اور اس کے سردار فَظَلَمُوْا : تو انہوں نے ظلم (انکار کیا) بِهَا : ان کا فَانْظُرْ : سو تم دیکھو كَيْفَ : کیا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والے
پھر بھیجا ہم نے ان (انبیاء اور ان کی قوموں) کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سربرآوردہ لوگ کے پاس پس انہوں نے ظلم کیا ان (نشانیوں) کے ساتھ پس دیکھو کیسا پس انہوں نے ظلم کیا ان (نشانیوں) کے ساتھ۔ پس دیکھو کیسا ہوا انجام فساد کرنے والوں کا
ربط آیات اس سے اللہ تعالیٰ نے پانچ انبیا (علیہ السلام) اور ان کی قوموں کا حال بیان کرکے حضور ﷺ اور آپ کے پیرو کاروں کو جرات دلائی اور تسلی دی کہ ان قوموں کا حال پیش نظر رکھو اور تبلیغ دین کے لیے مستعد ہوجائو۔ پھر اللہ نے درمیان میں اقوام عالم کی عمومی ذہنیت کا ذکر کیا اور اللہ کی وہ سنت اور دستور بیان کیا جس کے تحت نافرمانوں کو سزا ملتی ہے اور اطاعت گزاروں کو فلاح نصیب ہوتی ہے اب اس درس سے تاریخ انبیا ہی کے سلسلے میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان لوگوں کا ذکر شروع ہورہا ہے جن کی طرف آپ کو مبعوث کیا گیا تو یہاں سے کافی دور تک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) آپ کی قوم بنی اسرائیل اور فرعون اور اس کی قوم کے لوگوں کا حال بیان ہوگا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تک صابی دور تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے حنیفی دور شروع ہوا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے تقریباً سات سو سال بعد اور حضرت یوسف (علیہ السلام) سے تقریباً چار سو سال بعد مبعوث ہوئے۔ اس لحاظ سے آپ حنیفی آئمہ میں سے عظیم المرتبت امام ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی بعثت کا تذکرہ اس طرح کیا ہے ثم بعثنا من بعدھم موسیٰ پھر ہم نے ان کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا ان سے مراد وہ پانچ انبیا علہیم السلام اور ان کی اقوام ہیں جن کا ذکر تبلیغ رسالت کے ضمن میں ہوچکا ہے ہم نے موسیٰ علیہ السلا ام کو بھیج بایتنا اپنی نشانیاں دے کر۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کل نو نشانیاں یا معجزات عطا کیے تھے جن میں سے دو کا ذکر اس مقام پر ہے ، چھ معجزات کا ذکر آگے آئے گا اور ایک کا ذکر سورة یونس میں آتا ہے تو فرمایا ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو واضح نشانیوں کے ساتھ بھیجا الی فرعون وملائہ فرعون اور اس کے سربرآوردہ لوگوں کی طرف موسیٰ (علیہ السلام) کی امت دعوت قبطی لوگ اور ان کا بادشاہ فرعون تھا جو مصر میں برسراقتدار تھا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی امت میں ان کی اپنی قوم بنی اسرائیل بھی تھی جو کہ آپ کو ماننے والی امت اجابت تھی۔ مصر کی تاریخ میں کئی دور گزرے ہیں وہاں پر سولہ سو سال تک فراعین کو عروج حاصل رہا۔ مصر میں چار تاریخی ادوار گزرنے کے بعد پانچواں دور مسلمانوں کا آیا جب صحابہ کرام ؓ کے زمانے میں مصر فتح ہوا۔ لفظ فرعون لفظ ” فرعون “ کے مادہ اشتقاق میں مفسرین کا اختلاف ہے بعض فرماتے ہیں کہ فرعون تفرع سے مشتق ہے جس کا معنی تکبر کرنا ہے چونکہ فرعون بڑا مغرور اور متکبر آدمی تھا اس لیے وہ اس نام سے مشہور ہوا تفسیر حقانی میں فرعون کا مادہ اشتقاق فروع بتایا گیا ہے اور مصری زبان میں اس کا معنی بڑا بادشاہ ہے فرعون اپنے آپ کو بڑا رب انا ربکم الاعلیٰ (النزعت) کہلاتا تھا۔ اس لیے یہ فرعون کے نام سے موسوم ہوا فرعون کا معنی دیوتا بھی ہوتا ہے بعض فرماتے ہیں کہ فرعون کو سورج کا مظہر قرار دیا جاتا تھا صابیوں کے دور میں ستاروں کی پرستش ہوتی تھی اور ان کے نام پر مندر بھی بنے ہوئے تھے۔ جس طرح ہندو مختلف مظہر اور اوتار مانتے ہیں اسی طرح فرعون کو سورج کا اوتار مانا جاتا ہے بہرحال لفظ فرعون کا معنی کچھ بھی کیا جائے یہ مصر کے بادشاہوں کا لقب تھا اور سارے مصری بادشاہ اسی لقب سے ملقب ہوئے تھے بعد میں قبطی اپنے بادشاہ کو مقوقس بھی کہتے تھے۔ اس قسم کے شاہانہ القاب باقی دنیا میں پائے جاتے تھے جیسے ہندوستان میں بادشاہ کو راجہ کہتے تھے چین میں خاقان ، ایران کا بادشاہ کسری کہلاتا تھا جب کہ رومی اپنے بادشاہ کو قیصر کہتے تھے بہرحال مصر کے بادشاہ کا اصل نام مصعب ابن ریان یا اعمیس تھا بعض کہتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے دو مختلف بادشاہوں کا زمانہ پایا۔ یعنی آپ کی پرورش کرنے والا فرعون اور تھا اور غرق ہونے والا دوسرا تاہم زیادہ مشہور یہی ہے کہ وہ امیس ہی تھا جس کے عہد حکومت میں موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے اسی کے ساتھ آپ کے بحث مباحثے ہوتے رہے اور وہی غرق ہوا۔ اسی کو قرآن پاک میں فرعون کا نام دیا گیا ہے۔ معجزات کا انکار جب موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون اور اس کے حاریوں کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا اور کہا کہ میں تمہارے پاس اپنے رب کی طرف سے نشانیاں یا معجزات لے کر آیا ہوں فظلموبھا تو انہوں نے ان نشانیوں کا انکار کردیا اور کہا یہ تو جادو ہے ، ظلم کا عام فہم معنی زیادتی ہے اور اس سے مراد شرک اور کفر ہے۔ ظلم عدل کے مقابلے میں ناانصافی کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ قتل ، حق تلفی اور فتنہ و فساد سب ظلم کی تعریف میں آتے ہیں یہاں پر ظلم سے مراد انکار ہے یعنی فرعون اور اس کے سراروں نے موسیٰ (علیہ السلام) کے لائے ہوئے معجزات کو تسلیم کرنے سے انکار کردای۔ تو فرمایا فانظرکیف کان عاقبۃ الفمسدین دیکھو ! فساد کرنے والوں کا کیسا انجام ہوا انبیا (علیہم السلام) اللہ تعالیٰ کے سفیر ہوتے ہیں وہ بنی نوع انسان کے بےلوث خیر خواہ اور ان کے لیے نمونہ ہوتے ہیں وہ ایمان ، تقویٰ اور نیک اعمال کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جو شخص ان انبیاء کا انکار کرتا ہے ان کے لائے ہوئے معجزات کو جھٹلاتا ہے ان کو ایذا پہنچاتا ہے اس سے بڑھ کر فسادی کون ہوسکتا ہے۔ ایسے لوگوں کا انجام وہی ہوتا ہے جو فرعون اور اس کی قوم کا ہوا۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا دیکھو ! فساد کرنے والوں کا کیا انجام ہوا۔ فرعون سے خطاب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو اس طرح دعوت پیش کی وقال موسیٰ یفرعون انی رسول من رب العلمین اے فرعون میں تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے رسول بناکر بھیجا گیا ہوں دوسرے مقام پر حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) دونوں کا ذکر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کو فرعون کی طرف بھیجا اور فرمایا خرف نہ کھائو ، میں تمہارے ساتھ ہوں فقرلا انارسولا ربک (طہ) انہوں نے کہا ہم دونوں تیرے سب کے رسول ہیں یہاں پر صرف موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر ہے کہ انہوں نے فرعون سے ا پنا تعارف کرا کے یہ بھی فرمایا حقیق علی ان لا اقول علی اللہ الا الحق میں اس بات کا سزاوار ہوں کہ اللہ تعالیٰ پر حق کے سوا کچھ نہ کہوں۔ حقیق حق کے مادے سے ہے اور اس کا معنی ثابت ہونا یا قائم ہونا بھی ہوتا ہے۔ اسی لیے حضرت مولانا شی ، الہند (رح) اس آیت کا ترجمہ کرتے ہیں میں قائم ہوں اس بات پر ” کہ اللہ کے بارے میں وہی بات کہوں جو کچی ہے اور کوئی غلط بات اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہ کروں۔ جھوٹی بات منسوب کرنا تو کذاب کا کام ہوتا ہے اللہ کا نبی سچا ہوتا ہے وہ کبھی جھوٹی بات نہیں کرتا۔ تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون سے کہا کہ میں اس بات کے لائق ہوں کہ اللہ تعالیٰ پر حق کے سوا کچھ نہ کہوں۔ معجزہ اور کرامت آپ نے یہ بھی فرمایا قدجتکم ببینۃ من ربکم میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح نشانی لے کر آیا ہوں اس نشانی سے دین ، شریعت ، ایمان ، معجزہ وغیرہ مراد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں پر دو واضح نشانیاں یعنی معجزات کا ذکر کیا ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے پاس لے کر گئے تھے معجزہ اس لیے معجزہ کہلاتا ہے کہ وہ انسان کے بس میں نہیں ہوتا اور انسان اس سے عاجز ہوتے ہیں۔ معجزہ طبعی امور میں سے نہیں ہوتا بلکہ خارق عادت چیز ہوتی ہے یہ ایسی غیر معمولی اور خلاف طبع چیز ہوتی ہے جس کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا اور انسان مجبور ہوجاتا ہے لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ جب کوئی معجزہ دیکھے تو اس کو تسلیم کرلے اس کا انکار نہ کرے۔ اگر کوئی خارق عادت چیز نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو معجزہ کہلاتی ہے اور اگر ولی سے ظاہر ہو تو اسے کرامت کہتے ہیں تاہم یاد رکھنا چاہیے کہ معجزہ یا کرامت غیر اختیاری چیز ہے کسی نبی یا ولی کے اختیار میں نہیں ہوتا کہ جب چاہے کوئی معجزہ یا کرامت ظاہر کردے۔ سورة مومن میں موجود ہے ” وما کان لرسول ان یاتی بایۃ الا باذان اللہ “ کسی رسول کے بس میں نہیں کہ اللہ کے حکم کے سوا کوئی معجزہ پیش کرسکے امام شاہ ولی (رح) محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ اکثر لوگ نبی یا ولی کے ہاتھ پر معجزہ یا کرامت دیکھ کر اسے ان کا ذاتی فعل سمجھتے ہیں اور اس طرح شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں حالانکہ معجزہ یا کرامت اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے جو وہ نبی یا ولی کے ہاتھ پر ظاہر کرکے ان کو عزت بخشتا ہے نصاریٰ اسی مقام پر آکرگمراہ ہوئے انہوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کے معجزات دیکھے تو ان کے متعلق الوہیت کا اعتقاد قائم کرلیا اور اس طرح شرک میں ملوث ہوگئے۔ بنی اسرائیل کی آزادی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تقریر فرعون کے سامنے جاری ہے آپ نے سب سے پہلے اپنا تعارف بحیثیت رسول کرایا ، پھر کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کے متعلق صرف حق بات کہنے پر مامور ہوں پھر بتایا کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نشانیاں لے کر آیا ہوں اس کے بعد چوتھے نمبر پر آپ نے اپنا مدعا بیان کیا اور فرعون سے فرمایا فارسل معی بنی اسرائیل پس بھیج دے میرے ساتھ بنی اسرائیل کو انہیں اپنی غلامی سے نکال دے تاکہ میں ان کو مصر سے ان کے اصل وطن شام اور فلسطین لے جائوں حضرت یوسف (علیہ السلام) کا اصل وطن تو فلسطین تھا مگر مصر میں پہنچ کر اللہ نے آپ کو اقتدار بخشا اس زمانے میں آپ کے خاندان کے 70 یا 72 افراد تھے جنہیں یوسف (علیہ السلام) سے تعلق کی بنا پر بڑی عزت حاصل تھی تاہم آپ کے بعد وہاں کے مقامی قبطی لوگ ہی برسراقتدار آئے اور انہوں نے آہستہ آہستہ بنی اسرائیلیوں کو غلام بنالیا اور انہیں سخت تکالیف میں مبتلا کردیا اس دوران کئی صدیاں گزر گئیں ان کی تعداد بڑھتی رہی چناچہ جب موسیٰ (علیہ السلام) ان کو لے کر راتوں رات مصر سے نکلے تو اس وقت تک ان کی تعداد چھ لاکھ ستر ہزار افراد تک پہنچ چکی تھی اصلاً یہ لوگ موحد تھے اور مصر کے مقامی لوگ مشرک تھے مذہبی اختلاف کی بنا پر بھی بنی اسرائیل قبطیوں کے مظالم کا شکار بنے ہوئے تھے اور دوسری بات یہ ہوئی کہ کسی نجومی نے فرعون کو اس وہم میں مبتلا کردیا کہ بنی اسرائیل میں ایک ایسا شخص پیدا ہونے والا ہے جو تیسری سلطنت کے زوال کا باعث ہوگا چناچہ فرعون نے اسرائیلی بچوں کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا جس کا ذکر سورة بقرہ اور دیگر سورتوں میں بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنے احسانات یاد کراتے ہوئے فرمایا واذا نجینکم من اٰل فرعون یسومونکم سوء العذاب یذبحون ابناء کم ویستحیون نساء کم “ اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے تمہیں قوم فرعون سے نجات دی وہ تمہیں سخت تکالیف میں مبتلا کرتے تھے تمہارے بیٹوں کو قتل کرتے تھے اور تمہاری بچیوں کو زندہ رکھتے تھے۔ بہرحال موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون سے بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ غلامی غیر فطری چیز ہے غلامی ایک غیر فطری چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے غلامی کا مسئلہ سورة نحل میں سمجھایا ہے ” عبداً مملوکاً لایقدر علی شی ئٍ “ یعنی غلام آدمی کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا چناچہ اگر وہ کوئی مال چھوڑ کر مرجائے تو یہ اس کے کسی وارث کو نہیں ملتا بلکہ اس کے آقا کی ملکیت ہوتا ہے کیونکہ وہ آقا کے تابع ہوتا ہے اسی لیے شریعت کا یہ مسئلہ بھی ہے کہ اگر غلام اپنے آقا کے ساتھ سفر پر جائے تو قیام یا سفر کے لیے غلام کی اپنی کوئی نیت نہیں ہوتی بلکہ جو نیت آقا کی ہوتی ہے غلام پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ، اگر آقا نے کسی جگہ پر پندرہ دن یا زیادہ کے قیام کی نیت کی ہے تو غلام کو بھی وہی نیت شمار ہوگی اور اسے پوری نماز پڑھی ہوگی اسی طرح اگر آقا کسی مقام پر مسافر ہے تو غلام بھی مسافر سمجھا جائے گا یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح بیوی کی نیت اپنے خاوند کے تابع ہوتی ہے جہاں خاوند نے قیام کی نیت کی ، بیوی بھی مقیم سمجھی جائے گی اور جہاں خاوند نے سفر کی نیت کی بیوی بھی مسافر ہوگی۔ بہرحال غلامی ایک غیر فطری چیز ہے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو آزاد پیدا کیا ہے خاص طور پر غلاموں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرنا ، اس سے طاقت سے زیادہ مشقت لینا اور خوراک لباس وغیرہ مناسب نہ دینا نہایت ہی ظلم کی بات ہے جو کہ کسی طرح بھی مستحسن نہیں۔ قدیم زمانے میں پوری دنیا میں غلامی کا رواج پایا جاتا تھا مگر اب گزشتہ صدی سے یہ قباحت ختم ہوچکی ہے۔ غلاموں کے لیے اصلاحات نزول قرآن کے زمانہ میں غلامی کا رواج عام تھا جس سے تمدن کا سارا نظام بگڑ چکا تھا اس وقت اکثر کاروبار غلاموں کے سر پر تھا س لیے اس نظم کو یکسر ختم کردینا ممکن نہیں تھا ایسا کرنے سے پورے معاشی نظام کے الٹ پلٹ ہوجانے کا خطرہ تھا لہٰذا حضور ﷺ نے اس نظام میں اصلاح کا اہتمام کیا آپ نے فرمایا ان غلاموں کو حقیر نہ سمجھو یہ تمہارے انسانی بھائی ہیں اللہ نے کسی وجہ سے انہیں تمہارے ہاتھ میں دے دیا ہے ان کو ویسا ہی کھلائو جیسا خود کھاتے ہو اور ان کو ویسا ہی پہنائو جیسا خود پہنتے ہو ان سے استطاعت سے زیادہ کام نہ لو۔ اگر کسی مشقت کے کام میں لگائوں تو خود بھی ان کے ساتھ تعاون کرو اور ان پر کسی قسم کا ظلم نہ کرو۔ مسلم شریف میں ابو مسعود انصاری ؓ کا واقعہ منقلو ہے کہ اس نے راستے میں غلام کو مارا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پیچھے آرہے تھے آپ نے فرمایا واللہ اقدر علیک منک علی ھذا یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ تم پر زیادہ قدرت رکھتا ہے اس سے جتنا تم اس غلام پر قادر ہو پھر انہوں نے عمر بھر غلام کے ساتھ کبھی زیادتی نہیں کی حضور ﷺ نے غلاموں کی آزادی کا ایک راستہ بتا دیا چناچہ کئی گناہوں کا کفارہ غلام کی آزادی قرار دیا ویسے بھی حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ جو شخص غلام کو آزاد کرے گا اس کے ہر ہر عضو کے بدلے اللہ تعالیٰ آزاد کنندہ کے ہر ہر عضو کو جہنم کی آگ سے آزاد کرے گا۔ مسلمانوں کی مجموعی غلامی مسلمانوں کا پہلا ساڑھے چھ سو سال کا دور آزادی کا دور تھا انہیں دنیا میں عروج حاصل تھا آزادی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہوتی ہے مگر تاتاریوں کے حملے کے بعد مسلمانوں پر زوال آیا اور ان پر مجموعی غلامی کا دور شروع ہوا اس وقت یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ مسلمان غلام بھی ہوسکتا ہے علمائے وقت کو سخت پریشانی لاحق ہوئی کہ مسلمانوں کی اجتماعیت کو کیسے برقرار رکھا جائے مگر غلامی کے سائے گہرے ہوتے گئے اور پھر آخر میں انگریزوں کا زمانہ آیا جس میں انہوں نے مسلمانوں کو اخلاقی اور اقتصادی غلامی میں مبتلا کردیا مسلمانوں سے ان کی تعلیم ختم کرکے اپنی تعلیم رائج کی جس کا نتتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان ذہنی غلامی میں پھنس گئے وہ پنی سوچ اور فکر سے بھی محروم ہوگئے اور ان کی فکر کا واحد معیار انگریزی تعلیم رہ گئی۔ آج بھی تمام مشرقی ممالک ذہنی طور پر انگریز کے غلام ہیں امریکہ تو اب اٹھا ہے مگر ہے یہ بھی انگریز۔ انگریزوں نے مسلمانوں کو دین اور قرآن سے دور کردیا ہے عورتوں میں شیطانی آزادی کی روح پھونک دی ہے اب تمام ممالک انگریز کی سیاسی اور اقتصادی غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں روسی بھی بگڑے ہوئے انگریز ہیں یہودی اور عیسائی پہلے ہی مسلمانوں کے دشمن ہیں اہل اسلام کے خلاف یہ سب لوگ اکٹھے ہیں اور ثابت کر رہے الکفر ملۃ واحدۃ کہ یہ ایک ہی ملت کے افراد ہیں۔ امریکہ میں عیسائیوں اور یہودیوں کی اجارہ داری ہے اقتصادی غلبہ یہودیوں کو حاصل ہے سرمایہ دار لوگ ہیں اور تمام بنک انہی کے قبضے میں ہیں چناچہ اقتصادیات کے معاملہ میں حکومت بھی ان کی دست نگر ہے ایسی گہری سازش تیار کرتے ہیں کہ کسی کو پتہ نہیں چلتا۔ اقتصادی غلامی بھی بہت بڑی لعنت ہے جس کے سامنے مسلمان بےبس ہیں ان کی ذہنی غلامی نے آزاد اقوام کے شایان شان یہ ہے کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کریں۔ صنعت و حرفت میں ترقی کریں اور دوسروں کے دست نگر بننے کی بجائے اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کوشش کریں۔ مگر دیکھ لیں آج مسلمان دنیا کس تنزل میں پھنسی ہوئی ہے غریب ممالک اقتصادی طور پر تباہ حال اور ترقی سے محروم ہیں اور جن ممالک کے پاس پیسے کی فراوانی ہے ان کے پاس افرادی قوت نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے عربوں کو تیل کی دولت سے مالا مال کیا ہے مگر وہ ماہرین کے محتاج ہیں۔ چالیس سال کے عرصے میں اپنے انجینئر پیدا نہیں کرسکے تیل کے کنویں میں آگ لگ جائے تو اس پر قابو پانے کے لیے امریکہ اور جرمنی سے ماہرین منگوانا پڑتے ہیں مغربی ممالک نے صنعت و حرفت میں ترقی کرکے مشرقی ممالک کو تجارتی منڈیاں بنا رکھا ہے ان کے لیے ہر چیز باہر سے آتی ہے یہ ایسے ذہنی غلامی میں مبتلا ہیں کہ جس سے نکلنے کے لیے ان کے پاس کوئی پروگرام نہیں۔ انسان کی عزت و آبرو آزادی میں ہے۔ اس کے بغیر تو علامہ اقبال کہتے ہیں ” غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر “ غلام میں رہ کر انسان پست اور گھٹیا کام کرنے کا عادی ہوجاتا ہے فتنہ فساد ، کھیلتماشے ، عیاشی اور فحاشی اس کے محبوب مشغلے ہوتے ہیں۔ اپنوں سے دشمنی اور اغیار سے دوستی اس کا معمول بن جاتا ہے انگریزوں کے زمانہ میں برصغیر میں مسلمانوں نے ایک دوسرے کی جاسوسی کرکے من حیث القوم مسلمانوں کو کتنا نقصان پہنچایا۔ کسی کو مراد دیا۔ کسی کو قید کرایا اور کسی کو کالے پانی بھجوایا۔ اپنوں سے دشمنی مگر انگریز کے کہنے پر کعبہ پر بھی گولی چلادی اور ترکوں کے خلاف جنگ میں شریک ہوئے یہ سب غلامی کے اثرات ہیں۔ بہرحال موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون سے کہا کہ بنی اسرائیل کو غلامی سے آزاد کرکے میرے ساتھ روانہ کردو تاکہ میں انہیں گندے ماحول سے نکال لے جائوں چناچہ فرعون کی غرقابی کے بعد جب آپ صحرائے سینا میں پہنچ گئے تو پھر وہیں کھلی فضا میں رہنا پسند کیا ، واپس مصر نہیں گئے کیونکہ وہاں پر وہی قوم آباد تھی جس سے انہوں نے آزادی حاصل کی تھی۔ دو عظیم معجزے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کو معجزات کی پیش کش کرچکے تھے چناچہ فرعون نے کہا قال ان کنت جئت بایۃ اگر آپ کوئی نشانی یا معجزہ لائے ہیں فات بھا ان کنت من الصدقین اور اگر آپ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو وہ معجزات پیش کریں چناچہ فالقی عصاہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی لاٹھی کو ڈالا یہ ا ن کا پہلا معجزہ تھا کہ ان کے ہاتھ میں جو لاٹھی تھی اسے زمین پر پھینک دیا فاذاھی تعبان مبین پس اچانک وہ بڑا اژدھا بن گیا یہاں پر ثعبان کا ذکر ہے جب کہ بعض دوسرے مقامات پر جان یعنی چھوٹے سانپ کا ذکر آتا ہے عصا کے سانپ بننے کا واقعہ کئی مواقع پر پیش آیا ضرورت کے مطابق موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا کبھی بڑا اژدھا بن جاتا ہے اور کبھی چھوٹا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کا جادو گروں کے ساتھ کھلا مقابلہ ہوا اور جادوگروں نے رسیوں کے سانپ بنا ڈالے تو موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا بہت بڑا اژدھا بن گیا جو تمام سانپوں کو نگل گیا لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی جس میں کئی آدمی ہلاک ہوگئے۔ خود فرعون پر ایسی دہشت طاری ہوئی کہ اسہال شروع ہوگئے۔ اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) نے دوسری نشانی پیش کی ونزع یدھ آپ نے اپنا ہاتھ اپنی بغل میں ڈال کر باہر نکالا فاذا ھی بیضاء للنظرین پس اچانک وہ دیکھنے والوں کے لیے سفید تھا۔ آپ کا ہاتھ اتنا روشن تھا کہ اس نے زمین و آسمان کی درمیانی فضا کو منور کردیا دوسری جگہ من غیر سوء کے الفاظ بھی آتے ہیں کہ اس سفیدی میں کوئی خرابی نہیں تھی بعض اوقات برص کی بیماری کی وجہ سے انسانی جسم کے بعض حصے سفید ہوجاتے ہیں ایسا نہیں تھا بلکہ آپ کے ہاتھ میں نورانیت تھی اور وہ سورج کی طرح چمکتا تھا۔ یہاں پر اجمالی طور پر دو معجزات کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا فرمائے آگے کئی رکوع تک مزید تفصیلات آرہی ہیں۔
Top