Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 103
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهٖ فَظَلَمُوْا بِهَا١ۚ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ
ثُمَّ
: پھر
بَعَثْنَا
: ہم نے بھیجا
مِنْۢ بَعْدِهِمْ
: ان کے بعد
مُّوْسٰي
: موسیٰ
بِاٰيٰتِنَآ
: اپنی نشانیوں کے ساتھ
اِلٰى
: طرف
فِرْعَوْنَ
: فرعون
وَمَلَا۟ئِهٖ
: اور اس کے سردار
فَظَلَمُوْا
: تو انہوں نے ظلم (انکار کیا)
بِهَا
: ان کا
فَانْظُرْ
: سو تم دیکھو
كَيْفَ
: کیا
كَانَ
: ہوا
عَاقِبَةُ
: انجام
الْمُفْسِدِيْنَ
: فساد کرنے والے
پھر بھیجا ہم نے ان (انبیاء اور ان کی قوموں) کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سربرآوردہ لوگ کے پاس پس انہوں نے ظلم کیا ان (نشانیوں) کے ساتھ پس دیکھو کیسا پس انہوں نے ظلم کیا ان (نشانیوں) کے ساتھ۔ پس دیکھو کیسا ہوا انجام فساد کرنے والوں کا
ربط آیات اس سے اللہ تعالیٰ نے پانچ انبیا (علیہ السلام) اور ان کی قوموں کا حال بیان کرکے حضور ﷺ اور آپ کے پیرو کاروں کو جرات دلائی اور تسلی دی کہ ان قوموں کا حال پیش نظر رکھو اور تبلیغ دین کے لیے مستعد ہوجائو۔ پھر اللہ نے درمیان میں اقوام عالم کی عمومی ذہنیت کا ذکر کیا اور اللہ کی وہ سنت اور دستور بیان کیا جس کے تحت نافرمانوں کو سزا ملتی ہے اور اطاعت گزاروں کو فلاح نصیب ہوتی ہے اب اس درس سے تاریخ انبیا ہی کے سلسلے میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان لوگوں کا ذکر شروع ہورہا ہے جن کی طرف آپ کو مبعوث کیا گیا تو یہاں سے کافی دور تک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) آپ کی قوم بنی اسرائیل اور فرعون اور اس کی قوم کے لوگوں کا حال بیان ہوگا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تک صابی دور تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے حنیفی دور شروع ہوا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے تقریباً سات سو سال بعد اور حضرت یوسف (علیہ السلام) سے تقریباً چار سو سال بعد مبعوث ہوئے۔ اس لحاظ سے آپ حنیفی آئمہ میں سے عظیم المرتبت امام ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی بعثت کا تذکرہ اس طرح کیا ہے ثم بعثنا من بعدھم موسیٰ پھر ہم نے ان کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا ان سے مراد وہ پانچ انبیا علہیم السلام اور ان کی اقوام ہیں جن کا ذکر تبلیغ رسالت کے ضمن میں ہوچکا ہے ہم نے موسیٰ علیہ السلا ام کو بھیج بایتنا اپنی نشانیاں دے کر۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کل نو نشانیاں یا معجزات عطا کیے تھے جن میں سے دو کا ذکر اس مقام پر ہے ، چھ معجزات کا ذکر آگے آئے گا اور ایک کا ذکر سورة یونس میں آتا ہے تو فرمایا ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو واضح نشانیوں کے ساتھ بھیجا الی فرعون وملائہ فرعون اور اس کے سربرآوردہ لوگوں کی طرف موسیٰ (علیہ السلام) کی امت دعوت قبطی لوگ اور ان کا بادشاہ فرعون تھا جو مصر میں برسراقتدار تھا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی امت میں ان کی اپنی قوم بنی اسرائیل بھی تھی جو کہ آپ کو ماننے والی امت اجابت تھی۔ مصر کی تاریخ میں کئی دور گزرے ہیں وہاں پر سولہ سو سال تک فراعین کو عروج حاصل رہا۔ مصر میں چار تاریخی ادوار گزرنے کے بعد پانچواں دور مسلمانوں کا آیا جب صحابہ کرام ؓ کے زمانے میں مصر فتح ہوا۔ لفظ فرعون لفظ ” فرعون “ کے مادہ اشتقاق میں مفسرین کا اختلاف ہے بعض فرماتے ہیں کہ فرعون تفرع سے مشتق ہے جس کا معنی تکبر کرنا ہے چونکہ فرعون بڑا مغرور اور متکبر آدمی تھا اس لیے وہ اس نام سے مشہور ہوا تفسیر حقانی میں فرعون کا مادہ اشتقاق فروع بتایا گیا ہے اور مصری زبان میں اس کا معنی بڑا بادشاہ ہے فرعون اپنے آپ کو بڑا رب انا ربکم الاعلیٰ (النزعت) کہلاتا تھا۔ اس لیے یہ فرعون کے نام سے موسوم ہوا فرعون کا معنی دیوتا بھی ہوتا ہے بعض فرماتے ہیں کہ فرعون کو سورج کا مظہر قرار دیا جاتا تھا صابیوں کے دور میں ستاروں کی پرستش ہوتی تھی اور ان کے نام پر مندر بھی بنے ہوئے تھے۔ جس طرح ہندو مختلف مظہر اور اوتار مانتے ہیں اسی طرح فرعون کو سورج کا اوتار مانا جاتا ہے بہرحال لفظ فرعون کا معنی کچھ بھی کیا جائے یہ مصر کے بادشاہوں کا لقب تھا اور سارے مصری بادشاہ اسی لقب سے ملقب ہوئے تھے بعد میں قبطی اپنے بادشاہ کو مقوقس بھی کہتے تھے۔ اس قسم کے شاہانہ القاب باقی دنیا میں پائے جاتے تھے جیسے ہندوستان میں بادشاہ کو راجہ کہتے تھے چین میں خاقان ، ایران کا بادشاہ کسری کہلاتا تھا جب کہ رومی اپنے بادشاہ کو قیصر کہتے تھے بہرحال مصر کے بادشاہ کا اصل نام مصعب ابن ریان یا اعمیس تھا بعض کہتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے دو مختلف بادشاہوں کا زمانہ پایا۔ یعنی آپ کی پرورش کرنے والا فرعون اور تھا اور غرق ہونے والا دوسرا تاہم زیادہ مشہور یہی ہے کہ وہ امیس ہی تھا جس کے عہد حکومت میں موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے اسی کے ساتھ آپ کے بحث مباحثے ہوتے رہے اور وہی غرق ہوا۔ اسی کو قرآن پاک میں فرعون کا نام دیا گیا ہے۔ معجزات کا انکار جب موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون اور اس کے حاریوں کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا اور کہا کہ میں تمہارے پاس اپنے رب کی طرف سے نشانیاں یا معجزات لے کر آیا ہوں فظلموبھا تو انہوں نے ان نشانیوں کا انکار کردیا اور کہا یہ تو جادو ہے ، ظلم کا عام فہم معنی زیادتی ہے اور اس سے مراد شرک اور کفر ہے۔ ظلم عدل کے مقابلے میں ناانصافی کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ قتل ، حق تلفی اور فتنہ و فساد سب ظلم کی تعریف میں آتے ہیں یہاں پر ظلم سے مراد انکار ہے یعنی فرعون اور اس کے سراروں نے موسیٰ (علیہ السلام) کے لائے ہوئے معجزات کو تسلیم کرنے سے انکار کردای۔ تو فرمایا فانظرکیف کان عاقبۃ الفمسدین دیکھو ! فساد کرنے والوں کا کیسا انجام ہوا انبیا (علیہم السلام) اللہ تعالیٰ کے سفیر ہوتے ہیں وہ بنی نوع انسان کے بےلوث خیر خواہ اور ان کے لیے نمونہ ہوتے ہیں وہ ایمان ، تقویٰ اور نیک اعمال کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جو شخص ان انبیاء کا انکار کرتا ہے ان کے لائے ہوئے معجزات کو جھٹلاتا ہے ان کو ایذا پہنچاتا ہے اس سے بڑھ کر فسادی کون ہوسکتا ہے۔ ایسے لوگوں کا انجام وہی ہوتا ہے جو فرعون اور اس کی قوم کا ہوا۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا دیکھو ! فساد کرنے والوں کا کیا انجام ہوا۔ فرعون سے خطاب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو اس طرح دعوت پیش کی وقال موسیٰ یفرعون انی رسول من رب العلمین اے فرعون میں تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے رسول بناکر بھیجا گیا ہوں دوسرے مقام پر حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) دونوں کا ذکر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کو فرعون کی طرف بھیجا اور فرمایا خرف نہ کھائو ، میں تمہارے ساتھ ہوں فقرلا انارسولا ربک (طہ) انہوں نے کہا ہم دونوں تیرے سب کے رسول ہیں یہاں پر صرف موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر ہے کہ انہوں نے فرعون سے ا پنا تعارف کرا کے یہ بھی فرمایا حقیق علی ان لا اقول علی اللہ الا الحق میں اس بات کا سزاوار ہوں کہ اللہ تعالیٰ پر حق کے سوا کچھ نہ کہوں۔ حقیق حق کے مادے سے ہے اور اس کا معنی ثابت ہونا یا قائم ہونا بھی ہوتا ہے۔ اسی لیے حضرت مولانا شی ، الہند (رح) اس آیت کا ترجمہ کرتے ہیں میں قائم ہوں اس بات پر ” کہ اللہ کے بارے میں وہی بات کہوں جو کچی ہے اور کوئی غلط بات اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہ کروں۔ جھوٹی بات منسوب کرنا تو کذاب کا کام ہوتا ہے اللہ کا نبی سچا ہوتا ہے وہ کبھی جھوٹی بات نہیں کرتا۔ تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون سے کہا کہ میں اس بات کے لائق ہوں کہ اللہ تعالیٰ پر حق کے سوا کچھ نہ کہوں۔ معجزہ اور کرامت آپ نے یہ بھی فرمایا قدجتکم ببینۃ من ربکم میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح نشانی لے کر آیا ہوں اس نشانی سے دین ، شریعت ، ایمان ، معجزہ وغیرہ مراد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں پر دو واضح نشانیاں یعنی معجزات کا ذکر کیا ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے پاس لے کر گئے تھے معجزہ اس لیے معجزہ کہلاتا ہے کہ وہ انسان کے بس میں نہیں ہوتا اور انسان اس سے عاجز ہوتے ہیں۔ معجزہ طبعی امور میں سے نہیں ہوتا بلکہ خارق عادت چیز ہوتی ہے یہ ایسی غیر معمولی اور خلاف طبع چیز ہوتی ہے جس کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا اور انسان مجبور ہوجاتا ہے لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ جب کوئی معجزہ دیکھے تو اس کو تسلیم کرلے اس کا انکار نہ کرے۔ اگر کوئی خارق عادت چیز نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو معجزہ کہلاتی ہے اور اگر ولی سے ظاہر ہو تو اسے کرامت کہتے ہیں تاہم یاد رکھنا چاہیے کہ معجزہ یا کرامت غیر اختیاری چیز ہے کسی نبی یا ولی کے اختیار میں نہیں ہوتا کہ جب چاہے کوئی معجزہ یا کرامت ظاہر کردے۔ سورة مومن میں موجود ہے ” وما کان لرسول ان یاتی بایۃ الا باذان اللہ “ کسی رسول کے بس میں نہیں کہ اللہ کے حکم کے سوا کوئی معجزہ پیش کرسکے امام شاہ ولی (رح) محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ اکثر لوگ نبی یا ولی کے ہاتھ پر معجزہ یا کرامت دیکھ کر اسے ان کا ذاتی فعل سمجھتے ہیں اور اس طرح شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں حالانکہ معجزہ یا کرامت اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے جو وہ نبی یا ولی کے ہاتھ پر ظاہر کرکے ان کو عزت بخشتا ہے نصاریٰ اسی مقام پر آکرگمراہ ہوئے انہوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کے معجزات دیکھے تو ان کے متعلق الوہیت کا اعتقاد قائم کرلیا اور اس طرح شرک میں ملوث ہوگئے۔ بنی اسرائیل کی آزادی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تقریر فرعون کے سامنے جاری ہے آپ نے سب سے پہلے اپنا تعارف بحیثیت رسول کرایا ، پھر کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کے متعلق صرف حق بات کہنے پر مامور ہوں پھر بتایا کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نشانیاں لے کر آیا ہوں اس کے بعد چوتھے نمبر پر آپ نے اپنا مدعا بیان کیا اور فرعون سے فرمایا فارسل معی بنی اسرائیل پس بھیج دے میرے ساتھ بنی اسرائیل کو انہیں اپنی غلامی سے نکال دے تاکہ میں ان کو مصر سے ان کے اصل وطن شام اور فلسطین لے جائوں حضرت یوسف (علیہ السلام) کا اصل وطن تو فلسطین تھا مگر مصر میں پہنچ کر اللہ نے آپ کو اقتدار بخشا اس زمانے میں آپ کے خاندان کے 70 یا 72 افراد تھے جنہیں یوسف (علیہ السلام) سے تعلق کی بنا پر بڑی عزت حاصل تھی تاہم آپ کے بعد وہاں کے مقامی قبطی لوگ ہی برسراقتدار آئے اور انہوں نے آہستہ آہستہ بنی اسرائیلیوں کو غلام بنالیا اور انہیں سخت تکالیف میں مبتلا کردیا اس دوران کئی صدیاں گزر گئیں ان کی تعداد بڑھتی رہی چناچہ جب موسیٰ (علیہ السلام) ان کو لے کر راتوں رات مصر سے نکلے تو اس وقت تک ان کی تعداد چھ لاکھ ستر ہزار افراد تک پہنچ چکی تھی اصلاً یہ لوگ موحد تھے اور مصر کے مقامی لوگ مشرک تھے مذہبی اختلاف کی بنا پر بھی بنی اسرائیل قبطیوں کے مظالم کا شکار بنے ہوئے تھے اور دوسری بات یہ ہوئی کہ کسی نجومی نے فرعون کو اس وہم میں مبتلا کردیا کہ بنی اسرائیل میں ایک ایسا شخص پیدا ہونے والا ہے جو تیسری سلطنت کے زوال کا باعث ہوگا چناچہ فرعون نے اسرائیلی بچوں کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا جس کا ذکر سورة بقرہ اور دیگر سورتوں میں بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنے احسانات یاد کراتے ہوئے فرمایا واذا نجینکم من اٰل فرعون یسومونکم سوء العذاب یذبحون ابناء کم ویستحیون نساء کم “ اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے تمہیں قوم فرعون سے نجات دی وہ تمہیں سخت تکالیف میں مبتلا کرتے تھے تمہارے بیٹوں کو قتل کرتے تھے اور تمہاری بچیوں کو زندہ رکھتے تھے۔ بہرحال موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون سے بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ غلامی غیر فطری چیز ہے غلامی ایک غیر فطری چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے غلامی کا مسئلہ سورة نحل میں سمجھایا ہے ” عبداً مملوکاً لایقدر علی شی ئٍ “ یعنی غلام آدمی کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا چناچہ اگر وہ کوئی مال چھوڑ کر مرجائے تو یہ اس کے کسی وارث کو نہیں ملتا بلکہ اس کے آقا کی ملکیت ہوتا ہے کیونکہ وہ آقا کے تابع ہوتا ہے اسی لیے شریعت کا یہ مسئلہ بھی ہے کہ اگر غلام اپنے آقا کے ساتھ سفر پر جائے تو قیام یا سفر کے لیے غلام کی اپنی کوئی نیت نہیں ہوتی بلکہ جو نیت آقا کی ہوتی ہے غلام پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ، اگر آقا نے کسی جگہ پر پندرہ دن یا زیادہ کے قیام کی نیت کی ہے تو غلام کو بھی وہی نیت شمار ہوگی اور اسے پوری نماز پڑھی ہوگی اسی طرح اگر آقا کسی مقام پر مسافر ہے تو غلام بھی مسافر سمجھا جائے گا یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح بیوی کی نیت اپنے خاوند کے تابع ہوتی ہے جہاں خاوند نے قیام کی نیت کی ، بیوی بھی مقیم سمجھی جائے گی اور جہاں خاوند نے سفر کی نیت کی بیوی بھی مسافر ہوگی۔ بہرحال غلامی ایک غیر فطری چیز ہے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو آزاد پیدا کیا ہے خاص طور پر غلاموں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرنا ، اس سے طاقت سے زیادہ مشقت لینا اور خوراک لباس وغیرہ مناسب نہ دینا نہایت ہی ظلم کی بات ہے جو کہ کسی طرح بھی مستحسن نہیں۔ قدیم زمانے میں پوری دنیا میں غلامی کا رواج پایا جاتا تھا مگر اب گزشتہ صدی سے یہ قباحت ختم ہوچکی ہے۔ غلاموں کے لیے اصلاحات نزول قرآن کے زمانہ میں غلامی کا رواج عام تھا جس سے تمدن کا سارا نظام بگڑ چکا تھا اس وقت اکثر کاروبار غلاموں کے سر پر تھا س لیے اس نظم کو یکسر ختم کردینا ممکن نہیں تھا ایسا کرنے سے پورے معاشی نظام کے الٹ پلٹ ہوجانے کا خطرہ تھا لہٰذا حضور ﷺ نے اس نظام میں اصلاح کا اہتمام کیا آپ نے فرمایا ان غلاموں کو حقیر نہ سمجھو یہ تمہارے انسانی بھائی ہیں اللہ نے کسی وجہ سے انہیں تمہارے ہاتھ میں دے دیا ہے ان کو ویسا ہی کھلائو جیسا خود کھاتے ہو اور ان کو ویسا ہی پہنائو جیسا خود پہنتے ہو ان سے استطاعت سے زیادہ کام نہ لو۔ اگر کسی مشقت کے کام میں لگائوں تو خود بھی ان کے ساتھ تعاون کرو اور ان پر کسی قسم کا ظلم نہ کرو۔ مسلم شریف میں ابو مسعود انصاری ؓ کا واقعہ منقلو ہے کہ اس نے راستے میں غلام کو مارا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پیچھے آرہے تھے آپ نے فرمایا واللہ اقدر علیک منک علی ھذا یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ تم پر زیادہ قدرت رکھتا ہے اس سے جتنا تم اس غلام پر قادر ہو پھر انہوں نے عمر بھر غلام کے ساتھ کبھی زیادتی نہیں کی حضور ﷺ نے غلاموں کی آزادی کا ایک راستہ بتا دیا چناچہ کئی گناہوں کا کفارہ غلام کی آزادی قرار دیا ویسے بھی حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ جو شخص غلام کو آزاد کرے گا اس کے ہر ہر عضو کے بدلے اللہ تعالیٰ آزاد کنندہ کے ہر ہر عضو کو جہنم کی آگ سے آزاد کرے گا۔ مسلمانوں کی مجموعی غلامی مسلمانوں کا پہلا ساڑھے چھ سو سال کا دور آزادی کا دور تھا انہیں دنیا میں عروج حاصل تھا آزادی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہوتی ہے مگر تاتاریوں کے حملے کے بعد مسلمانوں پر زوال آیا اور ان پر مجموعی غلامی کا دور شروع ہوا اس وقت یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ مسلمان غلام بھی ہوسکتا ہے علمائے وقت کو سخت پریشانی لاحق ہوئی کہ مسلمانوں کی اجتماعیت کو کیسے برقرار رکھا جائے مگر غلامی کے سائے گہرے ہوتے گئے اور پھر آخر میں انگریزوں کا زمانہ آیا جس میں انہوں نے مسلمانوں کو اخلاقی اور اقتصادی غلامی میں مبتلا کردیا مسلمانوں سے ان کی تعلیم ختم کرکے اپنی تعلیم رائج کی جس کا نتتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان ذہنی غلامی میں پھنس گئے وہ پنی سوچ اور فکر سے بھی محروم ہوگئے اور ان کی فکر کا واحد معیار انگریزی تعلیم رہ گئی۔ آج بھی تمام مشرقی ممالک ذہنی طور پر انگریز کے غلام ہیں امریکہ تو اب اٹھا ہے مگر ہے یہ بھی انگریز۔ انگریزوں نے مسلمانوں کو دین اور قرآن سے دور کردیا ہے عورتوں میں شیطانی آزادی کی روح پھونک دی ہے اب تمام ممالک انگریز کی سیاسی اور اقتصادی غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں روسی بھی بگڑے ہوئے انگریز ہیں یہودی اور عیسائی پہلے ہی مسلمانوں کے دشمن ہیں اہل اسلام کے خلاف یہ سب لوگ اکٹھے ہیں اور ثابت کر رہے الکفر ملۃ واحدۃ کہ یہ ایک ہی ملت کے افراد ہیں۔ امریکہ میں عیسائیوں اور یہودیوں کی اجارہ داری ہے اقتصادی غلبہ یہودیوں کو حاصل ہے سرمایہ دار لوگ ہیں اور تمام بنک انہی کے قبضے میں ہیں چناچہ اقتصادیات کے معاملہ میں حکومت بھی ان کی دست نگر ہے ایسی گہری سازش تیار کرتے ہیں کہ کسی کو پتہ نہیں چلتا۔ اقتصادی غلامی بھی بہت بڑی لعنت ہے جس کے سامنے مسلمان بےبس ہیں ان کی ذہنی غلامی نے آزاد اقوام کے شایان شان یہ ہے کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کریں۔ صنعت و حرفت میں ترقی کریں اور دوسروں کے دست نگر بننے کی بجائے اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کوشش کریں۔ مگر دیکھ لیں آج مسلمان دنیا کس تنزل میں پھنسی ہوئی ہے غریب ممالک اقتصادی طور پر تباہ حال اور ترقی سے محروم ہیں اور جن ممالک کے پاس پیسے کی فراوانی ہے ان کے پاس افرادی قوت نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے عربوں کو تیل کی دولت سے مالا مال کیا ہے مگر وہ ماہرین کے محتاج ہیں۔ چالیس سال کے عرصے میں اپنے انجینئر پیدا نہیں کرسکے تیل کے کنویں میں آگ لگ جائے تو اس پر قابو پانے کے لیے امریکہ اور جرمنی سے ماہرین منگوانا پڑتے ہیں مغربی ممالک نے صنعت و حرفت میں ترقی کرکے مشرقی ممالک کو تجارتی منڈیاں بنا رکھا ہے ان کے لیے ہر چیز باہر سے آتی ہے یہ ایسے ذہنی غلامی میں مبتلا ہیں کہ جس سے نکلنے کے لیے ان کے پاس کوئی پروگرام نہیں۔ انسان کی عزت و آبرو آزادی میں ہے۔ اس کے بغیر تو علامہ اقبال کہتے ہیں ” غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر “ غلام میں رہ کر انسان پست اور گھٹیا کام کرنے کا عادی ہوجاتا ہے فتنہ فساد ، کھیلتماشے ، عیاشی اور فحاشی اس کے محبوب مشغلے ہوتے ہیں۔ اپنوں سے دشمنی اور اغیار سے دوستی اس کا معمول بن جاتا ہے انگریزوں کے زمانہ میں برصغیر میں مسلمانوں نے ایک دوسرے کی جاسوسی کرکے من حیث القوم مسلمانوں کو کتنا نقصان پہنچایا۔ کسی کو مراد دیا۔ کسی کو قید کرایا اور کسی کو کالے پانی بھجوایا۔ اپنوں سے دشمنی مگر انگریز کے کہنے پر کعبہ پر بھی گولی چلادی اور ترکوں کے خلاف جنگ میں شریک ہوئے یہ سب غلامی کے اثرات ہیں۔ بہرحال موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون سے کہا کہ بنی اسرائیل کو غلامی سے آزاد کرکے میرے ساتھ روانہ کردو تاکہ میں انہیں گندے ماحول سے نکال لے جائوں چناچہ فرعون کی غرقابی کے بعد جب آپ صحرائے سینا میں پہنچ گئے تو پھر وہیں کھلی فضا میں رہنا پسند کیا ، واپس مصر نہیں گئے کیونکہ وہاں پر وہی قوم آباد تھی جس سے انہوں نے آزادی حاصل کی تھی۔ دو عظیم معجزے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کو معجزات کی پیش کش کرچکے تھے چناچہ فرعون نے کہا قال ان کنت جئت بایۃ اگر آپ کوئی نشانی یا معجزہ لائے ہیں فات بھا ان کنت من الصدقین اور اگر آپ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو وہ معجزات پیش کریں چناچہ فالقی عصاہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی لاٹھی کو ڈالا یہ ا ن کا پہلا معجزہ تھا کہ ان کے ہاتھ میں جو لاٹھی تھی اسے زمین پر پھینک دیا فاذاھی تعبان مبین پس اچانک وہ بڑا اژدھا بن گیا یہاں پر ثعبان کا ذکر ہے جب کہ بعض دوسرے مقامات پر جان یعنی چھوٹے سانپ کا ذکر آتا ہے عصا کے سانپ بننے کا واقعہ کئی مواقع پر پیش آیا ضرورت کے مطابق موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا کبھی بڑا اژدھا بن جاتا ہے اور کبھی چھوٹا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کا جادو گروں کے ساتھ کھلا مقابلہ ہوا اور جادوگروں نے رسیوں کے سانپ بنا ڈالے تو موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا بہت بڑا اژدھا بن گیا جو تمام سانپوں کو نگل گیا لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی جس میں کئی آدمی ہلاک ہوگئے۔ خود فرعون پر ایسی دہشت طاری ہوئی کہ اسہال شروع ہوگئے۔ اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) نے دوسری نشانی پیش کی ونزع یدھ آپ نے اپنا ہاتھ اپنی بغل میں ڈال کر باہر نکالا فاذا ھی بیضاء للنظرین پس اچانک وہ دیکھنے والوں کے لیے سفید تھا۔ آپ کا ہاتھ اتنا روشن تھا کہ اس نے زمین و آسمان کی درمیانی فضا کو منور کردیا دوسری جگہ من غیر سوء کے الفاظ بھی آتے ہیں کہ اس سفیدی میں کوئی خرابی نہیں تھی بعض اوقات برص کی بیماری کی وجہ سے انسانی جسم کے بعض حصے سفید ہوجاتے ہیں ایسا نہیں تھا بلکہ آپ کے ہاتھ میں نورانیت تھی اور وہ سورج کی طرح چمکتا تھا۔ یہاں پر اجمالی طور پر دو معجزات کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا فرمائے آگے کئی رکوع تک مزید تفصیلات آرہی ہیں۔
Top