Asrar-ut-Tanzil - Ash-Shu'araa : 105
كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِ اِ۟لْمُرْسَلِیْنَۚۖ
كَذَّبَتْ : جھٹلایا قَوْمُ نُوْحِ : نوح کی قوم الْمُرْسَلِيْنَ : رسولوں کو
نوح (علیہ السلام) کی قوم نے پیغمبروں کو جھٹلایا
آیات 105 تا 122: اسرار و معارف : نبی اور رسول کو نہ ماننا گویا منصب نبوت کا انکار شمار ہوگا جیسے سب کا انکار کردیا : نوح (علیہ السلام) کی قوم نے اللہ کے رسولوں کو ماننے سے انکار کردیا کہ نوح (علیہ السلام) کا انکار کرکے گویا انہوں نے منصب نبوت و رسالت کا انکار کیا جو تمام انبیاء کا انکار شمار ہوا۔ اور نوح (علیہ السلام) ان کے لیے کوئی غیر معروف آدمی نہ تھے ان کے قومی بھائی تھے جن کی ذات سے وہ بخوبی واقف تھے مگر جب انہوں نے ان کے کردار پر بات کی اور فرمایا یاد رکھو میں اللہ کا رسول ہوں اور مانتدار ہوں یعنی وہی کہتا ہوں جو اللہ کہنے کا حکم دیتے ہیں اور تم سے اس لیے کہتا ہوں کہ اللہ نے تمہاری طرف بھیجا ہے۔ لہذا اللہ سے ڈرو اس کی نافرمانی سے باز آؤ اور میری اطاعت کرو جو در اصل اللہ کی اطاعت ہے۔ تبلیغ اور عبادات پہ اجرت : یہ بھی دیکھ لو کہ اس ساری تبلیغ اور مجاہدے پر میں سے کوئی اجرت طلب نہیں کرتا۔ بلکہ میری اجرت اللہ کریم ہی دینگے جو سب جہانوں کو پالنے والے ہیں۔ یہ مسئلہ پہلے بھی گذر چکا ہے کہ عبادات اور تبلیغ پر اجرت جائز نہیں مفتی محمد شیع مرحوم معارف القرآن میں فرماتے ہیں کہ سلف صالحین نے اس کو حرام کہا ہے مگر متاخرین نے اس کو بحالت مجبوری جائز قرار دیا ہے۔ گویا آج بھی مجبوری کے تحت جائز ہے اور مناسب یہ ہے کہ آدمی روزی کا کوئی دوسرا معروف ذریعہ اپنائے اور عبادات و تبلیغ پر اجرت نہ لے چناچہ پھر ارشاد ہوا کہ اللہ کی نافرمانی سے باز آجاؤ اور میری اطاعت اختیار کرو جس پر قوم نے جواب دیا آپ کی اطاعت کرلیں جبکہ آپ پر جو چند لوگ ایمان لائے وہ مفلس اور رذیل یعنی مزدور پیشہ لوگ ہیں۔ دنیا دار کے لیے امیر و غریب بھی دو قومیں ہیں : دنیا داروں کے نزدیک امیر اور غریب دو الگ قومیں ہیں اور سب بھلائیاں امارت میں اور ساری رذالت غربت میں نظرآتی ہے جبکہ اللہ کے نزدیک بھلائی اور خوبی اطاعت میں ہے خواہ غریب کرے یا امیر اور رذالت نافرمانی میں ہے چناچہ نوح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تمہارا یہ خیال درست نہیں کہ اعمال کا حساب تو اللہ کو لینا ہے اور وہ ہی دلوں کے حال سے بھی واقف ہے رہی یہ بات کہ میں انہیں نکال باہر کروں تب تم ایمان لاؤ گے تو میں ایسا نہیں کرسکتا کہ ایمان لا چکے تم بھی چاہو تو ان کے ساتھ شامل ہوجاؤ ورنہ تمہاری مرضی کہ میرا منصب برے کاموں اور غلط عقائد کے انجام بد کی خبر دینا ہے جو میں تم سب کو پہنچا رہا ہوں اس سے بچاؤ کا راستہ اختیار کرنا تمہارا کام ہے ۔ ان کھری کھری باتوں پہ وہ اور بھڑک اٹھے اور کہنے لگے کہ آپ یہ سب کچھ کہنا اور کرنا بند کیجیے اور ہمارے معاشرے کے خلاف کوئی نئی راہ مت کھولیے ورنہ ہم بطور سزا آپ کو سنگسار کردیں گے ایک بہت لمبے عرصے بعد ان سے ناامید ہو کر آپ نے دعا کی بار الہا اب میری قوم نے میری اور مومنین کی ہلاکت کا فیصلہ کرلیا ہے اور میں اپنی بات منوانے سے ناامید ہوچکا ہوں اب میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کردیجیے کہ یہ تباہ و برباد ہو کر مٹ جائیں اور مجھے اور میرے ساتھ ایمان لانے والوں کو ان سے اور عذاب الہی سے بھی نجات دیجیے۔ چناچہ اللہ کا عذاب نازل ہوا جس میں صرف نوح (علیہ السلام) اور ان کی کشتی میں سوار لوگ تو محفوظ رہے باقی سب کے سب غرق ہو کر تباہ ہوگئے۔ یہ سب قصہ بھی اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ اس میں بہت بڑی عبرت ہے اور انبیاء کی نافرمانی کا نتیجہ کیا ہوتا ہے یہ بات سامنے آجاتی ہے مگر اس کے باوجود اکثر لوگ ایمان سے محروم رہتے ہیں جبکہ اللہ ان سب کی ہلاکت پہ بھی قادر ہے مگر وہ رحیم ہے کہ مہلت دے رکھی ہے۔
Top