Dure-Mansoor - Ash-Shu'araa : 11
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ هَمَّ قَوْمٌ اَنْ یَّبْسُطُوْۤا اِلَیْكُمْ اَیْدِیَهُمْ فَكَفَّ اَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۠   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْهَمَّ : جب ارادہ کیا قَوْمٌ : ایک گروہ اَنْ : کہ يَّبْسُطُوْٓا : بڑھائیں اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف اَيْدِيَهُمْ : اپنے ہاتھ فَكَفَّ : پس روک دئیے اَيْدِيَهُمْ : ان کے ہاتھ عَنْكُمْ : تم سے وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَعَلَي : اور پر اللّٰهِ : اللہ فَلْيَتَوَكَّلِ : چاہیے بھروسہ کریں الْمُؤْمِنُوْنَ : ایمان والے
اے ایمان والو ! تم پر جو اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اسے یاد کرو، جب کہ ایک قوم نے تم پر دست درازی کا ارادہ کیا سو اس نے ان کے ہاتھوں کو تم تک پہنچنے سے روک دیا اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور ایمان والے اللہ ہی پر بھروسہ کریں۔
ایک دیہاتی کا آپ ﷺ پر تلوار اٹھانا (1) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور امام بیہقی نے دلائل میں جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ نبی ﷺ ایک منزل پر اترے لوگ چھوٹے درختوں کے نیچے متفرق ہوگئے۔ ان کے نیچے سایہ لے رہے تھے۔ نبی ﷺ نے اپنا اسلحہ ایک درخت کے ساتھ لٹکا دیا ایک دیہاتی آپ کی تلوار کی طرف آیا اور اس کو لے لہرانے لگا۔ پھر وہ نبی ﷺ پر متوجہ ہو کر کہنے لگا۔ آپ کو مجھ سے کون بچائے گا ؟ آپ نے فرمایا اللہ۔ دیہاتی نے دو مرتبہ کہا کہ مجھ سے کون بچائے گا ؟ اور نبی ﷺ فرماتے رہے۔ اللہ (بچائے گا) پھر دیہاتی نے تلوار کو میان میں رکھ دیا۔ نبی ﷺ نے اپنے اصحاب کو بلایا۔ اور اس دیہاتی کے طرز عمل کے بارے میں ان کو بتایا (کہ اس نے اس طرح مجھ پر تلوار اٹھائی) اور وہ دیہاتی بھی آپ کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا۔ اور یہ بھی وہ کہتے تھے کہ عرب میں سے ایک قوم نے غفلت میں نبی ﷺ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ انہوں نے اس دیہاتی کو بھیجا اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ لفظ آیت اذکروا نعمت اللہ علیکم اذھم قوم ان یبسطوا الیکم ایدیھم (2) امام حاکم نے حضرت جابر ؓ سے روایت نقل کی ہے اور اس کی تصحیح بھی کی کہ رسول اللہ ﷺ نے محارب خصفہ سے نحل کے مقام پر لڑائی کی کافروں نے مسلمانوں سے غفلت میں دیکھا۔ تو ان میں سے ایک آدمی جس کو غوث بن حارث کہا جاتا ہے آیا اور رسول اللہ ﷺ کے سر پر کھڑا ہوگیا۔ اور کہنے لگا کون تجھ کو بچائے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ۔ اور تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی۔ نبی ﷺ نے اٹھا لی اور فرمایا (اب) کون تجھ کو بچائے گا ؟ اس نے کہا بہترین تلوار اٹھانے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ اس نے کہا کہ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں آپ سے نہیں لڑوں گا۔ اور اس قوم کا ساتھ بھی نہیں دوں گا۔ جو آپ سے لڑے۔ آپ نے اس کا راستہ چھوڑ دیا اور وہ اپنی قوم کے پاس آکر کہنے لگا۔ میں تمہارے پاس لوگوں میں بہترین آدمی کے پاس سے آیا ہوں۔ جب نماز کا وقت ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے خوف کی نماز پڑھائی۔ دو جماعتوں میں تھے ایک جماعت دشمن کے آگے تھی اور ایک جماعت نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ جماعت دشمنوں کے سامنے چلی گئی ان کی جگہ پر وہ جماعت رک گئی جو دشمن کے سامنے تھی۔ یہ لوگ آئے اور رات کو بھی رسول اللہ ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھائی۔ صحابہ کی دو دو رکعتیں ہوئیں اور نبی ﷺ کی چار رکعت ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ پر مکمل اعتماد (3) ابن اسحاق اور ابو نعیم نے دلائل میں حسن (رح) کے طریق سے نقل کیا ہے کہ ایک آدمی قبیلہ بنو محارب میں سے جس کو غوث بن حارث کہا جاتا تھا اس نے اپنی قوم سے کہا میں تمہارے لئے محمد ﷺ کو قتل کر دوں ؟ لوگوں نے اس سے کہا تو کس طرح قتل کرے گا۔ تو اس نے کہا میں غفلت میں ان کے پاس جاؤں گا۔ یہ آدمی رسول اللہ ﷺ کی طرف آیا آپ تشریف فرما تھے اور آپ کی تلوار آپ کی گود میں تھی کہنے لگے یا محمد میں آپ کی تلوار کو دیکھ سکتا ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں (دیکھ لے) اس نے تلوار کو لیا اس کو (میان سے) نکال لیا اور حرکت دینے لگا اور حملہ کرنے کا ارادہ کرنے لگا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو ذلیل کیا کہنے لگا اے محمد تو مجھ سے نہیں ڈرتا حالانکہ میرے ہاتھ میں تلوار ہے پھر اس نے وہ تلوار رسول اللہ ﷺ کو واپس کردی۔ (اس پر یہ آیت) اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی۔ (4) ابو نعیم نے دلائل میں عطاء (رح) کے طریق سے اور امام ضحاک کے طریق سے ابن عباس ؓ سے نقل کیا کہ عمرو بن امیہ ضمری جب معونہ سے واپس لوٹا تو دو آدمی بنو کلب میں سے اس کو ملے جو رسول اللہ ﷺ سے امان لئے ہوئے تھے۔ اس نے ان دونوں کو قتل کردیا اور یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ دونوں رسول اللہ ﷺ کی امان میں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ یہودیوں کے قبیلے بنو نضیر کے پاس تشریف لے گئے اور آپ کے ساتھ ابو بکر، عمر اور علی ؓ بھی تھے۔ بنو نضیر والوں نے آپ سے ملاقات کی اور کہنے لگے مرحبا اے ابو القاسم ! آپ کس لئے آئے ہیں۔ آپ نے فرمایا ایک آدمی نے میرے صحابہ میں سے بنو کلاب کے دو آدمیوں کو قتل کردیا ان دونوں کے ساتھ میری امان تھی۔ قبیلہ والوں نے مجھ سے ان دونوں کی دیت طلب کی ہے میں نے تم سے مدد لینے کا ارادہ کیا ہے۔ کہنے لگے ہاں (ٹھیک ہے) آپ تشریف رکھیں ہم آپ کے لئے پیسے جمع کرتے ہیں آپ قلعہ کے نیچے بیٹھ گئے اور ابو بکر، عمر اور علی ؓ بھی۔ بنو نضیر نے مشورہ کیا کہ آپ پر ایک پتھر گرا دیں۔ جبرئیل تشریف لائے اور ان کے ارادے سے آپ کو مطلع فرمایا آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری لفظ آیت یایھا الذین امنوا اذکروا نعمت اللہ علیکم اذھم قوم (5) ابو صالح نے ابن عباس ؓ سے اس طرح روایت کیا ہے عروہ ؓ سے بھی روایت نقل ہے اور اس میں یہ زیادہ ہے کہ آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ان کو جلا وطنی کا حکم فرمایا جب انہوں نے (آپ کو قتل کرنے کا) ارادہ کیا اور ان کو حکم فرمایا کہ وہ اپنے گھر سے نکل جائیں۔ انہوں نے کہا کہاں جائیں آپ نے فرمایا حشر کی طرف۔ (6) ابن اسحاق، ابن جریر اور ابن منذر نے عاصم بن عمرو بن قتادہ اور عبد اللہ بن ابی بکر دونوں حضرات سے یہ روایت نقل کہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ بنو نضیر کے پاس عامریین کی دیت کے بارے میں ان سے مدد لینے کے لئے تشریف لے گئے۔ جن کو عمرو بن امیہ ضرر (رح) نے قتل کردیا تھا۔ جب آپ ان کے پاس آئے تو ان کے بعض لوگوں نے تنہائی میں بیٹھ کر مشورہ کیا اور انہوں نے (آپس میں) کہا تم ہرگز محمد کو اس سے زیادہ قریب نہ پاؤ گے جتنا اب ہیں۔ ایک آدمی کو حکم کرو کہ وہ اس گھر کی چھت پر چڑھ کر ان کے اوپر ایک پتھر گرا دے تاکہ ہم اس سے آرام پائیں۔ عمر بن حجاش بن کعب نے کہا میں (اس کام کے لئے حاضر ہوں) نبی ﷺ کے پاس یہ خبر آئی (وحی کے ذریعہ) تو آپ وہاں سے چل دئیے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں (یہ آیت) اتاری اور اس کے بارے میں جو اس نے اور اس کی قوم نے ارادہ کیا تھا۔ لفظ آیت یایھا الذین امنوا اذکروا نعمت اللہ علیکم اذھم قوم ان یبسطوا الیکم ایدیھم (7) عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن منذر نے مجاہد (رح) سے نقل کیا ہے کہ لفظ آیت اذھم قوم ان یبسطوا الیکم ایدیھم کے بارے میں فرمایا کہ یہ یہودی ہیں نبی ﷺ ان کے ایک باغ میں داخل ہوئے اور آپ کے صحابہ ؓ اس کی دیوار کے پیچھے تھے۔ ان سے ایک دیت کے بارے میں مدد طلب فرما رہے تھے۔ پھر آپ ان کے پاس سے کھڑے ہوگئے کیونکہ انہوں نے آپس میں ان کے قتل کرنے کا مشورہ کیا تھا۔ آپ الٹے پاؤں چل رہے تھے سامنے ہوتے ہوئے تاکہ ان کی طرف دیکھتے رہیں۔ پھر آپ نے اپنے صحابہ میں سے ایک ایک آدمی کو بلایا یہاں تک کہ وہ دیت آپ کی طرف لے کر آگئے۔ یہود کی شرارت وعدہ خلافی (8) ابن جریر نے یزید بن زیاد ؓ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ قبیلہ بنو نضیر کے پاس ایک دیت کے بارے میں ان سے مدد لینے کے لئے تشریف لائے آپ کے ساتھ ابو بکر، عمر اور علی ؓ بھی تھے۔ آپ نے (ان سے) فرمایا میری مدد کرو ایک دیت کے بارے میں جو مجھ کو پہنچ گئی ہے۔ انہوں نے کہا ہاں اے ابوالقاسم آپ ہمارے پاس آئے ہیں اور اپنی حاجت کا آپ نے سوال کیا ہے۔ آپ تشریف رکھیں یہاں تک کہ ہم آپ کو کھانا کھلائیں اور وہ چیز ہم آپ کو پیش کریں۔ جس کا آپ نے ہم سے سوال کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ بیٹھ کر ان کا انتظار کرنے لگے۔ حسین بن أخطب آیا اور جس نے اپنے ساتھیوں سے کہا ہم اس کو (یعنی محمد ﷺ اپنے سے زیادہ قریب دیکھتے ہو آپ اس پر ایک پتھر گرا دو اور اس کو قتل کر دو اور تم برائی کو پھر کبھی نہیں دیکھو گے۔ (نعوذباللہ) ۔ اور اپنی ایک بڑی چکی کے پاس آئے تاکہ اس کو آپ پر گرا دیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں کو روک دیا۔ یہاں تک کہ جبرئیل آپ کے پاس تشریف لائے تو آپ ان کے درمیان سے کھڑے ہوگئے اللہ تعالیٰ نے یہ اتارا لفظ آیت یایھا الذین امنوا اذکروا نعمت اللہ علیکم اذھم قوم الایہ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو خبر دی جو انہوں نے ارادہ کیا تھا۔ (9) عبد بن حمید، ابن جریر نے سعد کے طریق سے اور انہوں نے ابو مالک سے اس آیت کے بارے میں نقل کیا ہے کہ یہ آیت کعب بن اشرف اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی جب انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دھوکہ دینے کا ارادہ کیا۔ (10) ابن جریر اور ابن منذر عکرمہ ؓ سے روایت نقل کیا ہے کہ نبی ﷺ نے منذر بن عمر (رح) کو بھیجا (العقبہ کے نقیب تھے) انصار اور مہاجرین کے تیس سواروں کے ساتھ غطفان کی طرف یہ سوار بنو غطفان سے عامر کے چشموں میں سے ایک چشمہ پر ملے ایک دوسرے سے لڑے منذر بن عمر اور اس کے ساتھی قتل کر دئیے گئے مگر تین آدمی بچ گئے جو گم شدہ اونٹنی کی طلب میں (باہر گئے ہوئے) تھے دن کو کسی سے خوف زدہ نہیں کیا۔ مگر پرندے جو آسمان کی فضا میں اڑ رہے تھے ان کی چونچوں سے جما ہوا خون گر رہا تھا۔ (یہ دیکھ کر) ان لوگوں نے کہا ہمارے ساتھی قتل کر دئیے گئے رحمن کی قسم ان میں سے ایک آدمی چلا اور ایک آدمی سے ملا دونوں ایک دوسرے کو ضرب لگانے لگے جب اس آدمی کو ایک ضرب لگی تو اس نے اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھائی پھر اپنی آنکھوں کو اٹھایا۔ اور کہا اللہ اکبر رب العالمین کی قسم جنت ہے وہ اس کی گردن پکڑ لی تاکہ وہ مرجائے اس کے دونوں ساتھی چلے اور بنو سلیم میں سے دو آدمیوں میں سے انہوں نے ان دونوں کو بنو عامر کی طرف منسوب کرتے ہوئے ان کو قتل کردیا حالانکہ ان کے اور نبی ﷺ کے درمیان معاہدہ تھا ان کی قوم کے لوگ نبی ﷺ کے پاس آئے اور ان دونوں کی دیت کا مطالبہ کیا نبی ﷺ چلے اور آپ کے ساتھ ابو بکر، عمر، عثمان علی طلحہ زبیر اور عبدالرحمن بن عوف ؓ تھے۔ یہاں تک کہ بنو نضیر کے پاس پہنچے ان دونوں کی دیت کے بارے میں ان سے مدد کا مطالبہ کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا ہاں ہم مدد کریں گے۔ یہود نے باہم اتفاق کیا (خفیہ طور پر کہ نبی ﷺ اور آپ کے اصحاب کو قتل کردینے کا) انہوں نے کھانا پکانے کا حیلہ کیا۔ جب جبرئیل آپ کے پاس اس سازش کی خبر لائے جو یہودیوں نے دھوکہ کا ارادہ کیا تھا۔ آپ (جلدی) سے چلے گئے۔ پھر علی کو واپس بھیجا اور فرمایا اپنی اس جگہ رہو جو کوئی میرے صحابہ میں سے تیرے پاس سے گزرے اور وہ میرے بارے میں پوچھے تو کہہ دینا کہ آپ مدینہ کی طرف چلے گئے ہیں آپ ﷺ سے جا کر ملو۔ حضرت علی ؓ کے پاس جو لوگ گزرتے تھے تو وہ ان کو وہی کہتے تھے جس کا نبی ﷺ نے حکم فرمایا یہاں تک کہ ان کا آخری آدمی علی کے پاس آیا پھر صحابہ کے پیچھے ہو لئے۔ تو اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (11) ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے عوفی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں نقل کیا کہ یہودیوں میں سے ایک قوم نے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب کے لئے کھانا تیار کیا تاکہ ان سب کو قتل کردیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف سے حکم فرمایا کہ وہ بھی کھانے کو نہیں گئے۔ (12) عبد بن حمید اور ابن جریر نے قتادہ (رح) سے اس آیت کے بارے میں نقل کیا ہے کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ یہ آیت رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی اور آپ بطن نخل کے مقام پر دوسرے غزوہ میں تھے بنو ثعلبہ اور بنو محارب نے ارادہ کیا کہ دھوکہ سے قتل کردیا جائے اللہ تعالیٰ نے اس پروگرام پر مطلع فرمادیا۔ ہم کو یہ بات بھی ذکر کی گئی کہ ایک آدمی آپ کو قتل کرنے کے کئے آگے بڑھا۔ وہ اللہ کے نبی ﷺ کے پاس آیا اور آپ کی تلوار رکھی ہوئی تھی اس نے کہا میں اس کو لے لوں یا رسول اللہ ! فرمایا لے لو اس نے پھر کہا کیا میں تلوار سونت لوں فرمایا ہاں سونت لو اور کہنے لگا مجھ سے تم کو کون بچائے گا۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ مجھ کو تم سے بچائے گا۔ نبی ﷺ کے اصحاب ؓ نے اس کو دھمکایا اس کو سخت ڈانٹا تو اس نے تلوار کو میان میں رکھ دیا۔ نبی ﷺ نے اپنے صحابہ ؓ کو کوچ کرنے کا حکم فرمایا تو اس وقت آپ پر خوف کی نماز کا حکم نازل ہوا۔
Top