Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 105
كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِ اِ۟لْمُرْسَلِیْنَۚۖ
كَذَّبَتْ : جھٹلایا قَوْمُ نُوْحِ : نوح کی قوم الْمُرْسَلِيْنَ : رسولوں کو
حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا
کَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِ نِ الْمُرْسَلِیْنَ ۔ (الشعرآء : 105) (حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا۔ ) حضرت نوح (علیہ السلام) اور آپ کی دعوت کی سرگزشت سے پہلے چند حقائق آنحضرت ﷺ کی تسلی اور قریش پر دین حق کی حقانیت کو واضح کرنے اور ساتھ ہی ساتھ انھیں تنبیہ کرنے کے لیے دلائلِ آفاق اور دلائلِ انفس کے بعد تاریخی واقعات سے استشہاد کا جو سلسلہ شروع کیا تھا حضرت نوح (علیہ السلام) کا حوالہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ان واقعات کو پڑھتے ہوئے جو حقائق بار بار سامنے آتے ہیں ان میں سے پہلی حقیقت یہ ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر آخری رسول کریم ﷺ تک جتنے انبیاء کرام اور رسولانِ عظام تشریف لائے ہیں یہ ایک دوسرے سے واقف نہ تھے۔ ان میں سے بیشتر جغرافیائی تعلق بھی نہیں رکھتے تھے۔ ان کی زبانیں بھی باہم مختلف تھیں۔ ان کی بعثت بھی مختلف زمانوں میں ہوئی۔ یہ الگ الگ قوموں کی طرف بھیجے گئے۔ ان میں وحدت یکسانی اور یک رنگی کا کوئی سبب موجود نہ تھا۔ باایں ہمہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کی دعوت ایک ہے، ان کا دین ایک ہے، ان کے دین کے مبادی ایک ہیں، ان کا اسلوبِ دعوت یکساں ہے، ہر بعد میں آنے والا رسول پہلے گزرے ہوئے رسول اور اس پر نازل کردہ کتاب کی سچائی کو تسلیم کرتا اور اس کی تصدیق کرتا ہے۔ ان کے کردار میں بھی گہری یکسانی ہے، ان کے خیالات میں سرمو فرق نہیں۔ اور مزید حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان کے مخالفین نے مخالفت میں جو اعتراضات اٹھائے وہ سب رسولوں کے مخالفین میں یکساں نظر آتے ہیں۔ انھوں نے ایک ہی طرح سے اپنے اپنے رسول کی تکذیب کی۔ اور باہمی ملتے جلتے معجزات کا مطالبہ کیا۔ اور انجام کے اعتبار سے بھی تمام پیغمبروں میں گہری وحدت نظر آتی ہے۔ ہر قوم نے جب اپنے رسول کی تکذیب میں انتہا کردی، تو اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ رسول اور اس پر ایمان لانے والوں کو نجات دی اور تکذیب کرنے والوں کو عذاب کی نذر کردیا۔ دنیا میں تصدیق اور اعتماد کے لیے ہمیشہ انفرادی یا چند افراد کی شہادت پر بھروسہ کیا گیا ہے جبکہ کسی ایک شخص یا چند افراد کا کسی جھوٹ یا غلط بات پر اتفاق کرلینا چنداں باعث حیرت نہیں، لیکن وہ حقیقت جس پر قوموں نے گواہی دی ہو اور جن کی تصدیق اور تائید کے لیے ان کی آبادیوں کے کھنڈرات آج بھی بول رہے ہیں اس گواہی کی تردید اور اس کے ابطال کی کون حماقت کرسکتا ہے۔ انبیائے کرام کی تاریخ اور ان کی امتوں کے حالات دین حق کی حقانیت پر مختلف زمانوں میں گزری ہوئی قوموں کی گواہی ہے جس سے یہ بات حتمی طور پر ثابت ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول جس دین کو لے کر آئے تھے وہ سب سے بڑی حقیقت تھی۔ جن لوگوں نے اسے قبول کیا وہ اس کے نتیجہ میں یقینا ستائے گئے اور انھیں بہت تکلیفیں اٹھانا پڑیں، لیکن بالآخر وہ دنیا اور آخرت میں کامیاب ٹھہرے۔ اور جن لوگوں نے رسول کی تکذیب کی وہ اپنی تکذیب کی پاداش میں اللہ تعالیٰ کے عذاب کا شکار ہوئے اور ہمیشہ کے لیے عبرت کا سامان بنا دیئے گئے۔ یہ چند سامنے کے حقائق ہیں جو ان واقعات سے مترشح ہوتے ہیں۔ چناچہ ان ہی واقعات سے اس راستے کے داعی اور مناد اور اس راستے پر چلنے والوں کی تسکین اور استقامت کا سامان ہوتا ہے۔ اور انہی واقعات سے مخالفین کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ تم نے اگر ایمان لا کر اپنی حالت بدلنے کی کوشش نہیں کی تو آخر اسی عذاب میں پکڑے جاؤ گے جس کا نشانہ پہلی امتیں بن چکی ہیں۔ رسولوں کی تکذیب کا مفہوم رسولانِ گرامی کے سلسلے کی ایک عظیم کڑی حضرت نوح (علیہ السلام) بھی تھے۔ ان کی قوم نے بھی نے بھی ان کی تکذیب کی۔ غیرمعمولی طویل زمانے تک آپ ( علیہ السلام) نے تبلیغ و دعوت کا فرض انجام دیا۔ کئی نسلیں آپ ( علیہ السلام) کے سامنے گزریں لیکن ایک مختصر تعداد کے سوا قوم نے آپ ( علیہ السلام) کی دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس کا حوالہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ قوم نوح نے رسولوں کا انکار کیا حالانکہ آپ ( علیہ السلام) کی قوم نے آپ ( علیہ السلام) کی رسالت کا انکار کیا تھا، باقی رسولوں کا تو اس سے کوئی تعلق نہ تھا۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک رسولوں کی رسالت و دعوت میں اس حد تک وحدت اور یکسانی ہے کہ ایک رسول کی تکذیب تمام رسولوں کی تکذیب کے برابر ہے۔ کیونکہ سب رسولوں کو ایک ہی پروردگار نے مبعوث فرمایا، سب اسی ذات خداوندی کا پیغام لے کر آئے اور سب کا پیغام بالکل ایک ہے۔ اس لیے جو قوم ایک رسول کا انکار کرتی ہے وہ درحقیقت سب رسولوں کے انکار کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں ایسے لوگوں کو بھی کافر کہا گیا ہے جو صرف ایک نبی کا انکار کرتے ہوں، بیشک باقی تمام انبیاء کو مانتے ہوں۔ کیونکہ اصل سوال مخاطب قوم کی ذہنیت کا ہے۔ قبول کرنے والوں کی ذہنیت کا سانچا انکار کرنے والوں کی ذہنیت کے سانچے سے بالکل الگ ہوتا ہے۔ جس شخص کی ذہنیت میں رسالت کا انکار اپنی جگہ بنا چکا ہے اس سے یہ توقع کرنا عبث ہے کہ وہ کسی رسول کو بھی تسلیم کرے گا۔ کیونکہ رسولوں کی دعوت یکساں ہے تو جب بھی اس کے سامنے کسی رسول کی دعوت آئے گی تو چونکہ اس کی ذہنی ساخت سے وہ میل نہیں کھاتی تو وہ یقینا اس کا انکار کردے گا۔ اور اگر کہیں کوئی ایسی مثال موجود ہو کہ کوئی شخص ایک رسول کو مانتا ہے اور دوسرے رسول کا انکار کرتا ہے تو اگر تدبر سے کام لیا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ اس نے جس رسول کو مانا ہے پیغامِ رسالت کے حوالے سے نہیں مانا بلکہ کسی عصبیت یا تقلیدِ آبائی کی بنا پر مانا ہے۔ اور جہاں کہیں کسی سچے رسول کا انکار کیا ہے تو اس کی تہ میں بھی کوئی عصبیت یا حسد کا عارضہ کام کررہا ہے۔ بنی اسرائیل نے نبی کریم ﷺ کی رسالت کا انکار صرف حسد کے باعث کیا۔ کیونکہ وہ بنی اسماعیل کو کسی طرح بھی اپنے برابر تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے۔ آنحضرت ﷺ چونکہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھے اور بنی اسرائیل یہ سمجھ رہے تھے کہ آخری آنے والا پیغمبر ہمارے خاندان میں سے ہوگا۔ چناچہ جب انھوں نے دیکھا کہ آپ ﷺ تو بنی اسماعیل میں سے ہیں تو حسد کے مارے ایمان لانے سے انکار کردیا۔ مسیلمہ کذاب پر ایمان لانے والوں میں سے بعض سے جب پوچھا گیا کہ تم نے مسیلمہ میں ایسی کیا خوبی دیکھی کہ نبی کریم ﷺ کے مقابلے میں اسے نبی تسلیم کرلیا، تو انھوں نے صاف اقرار کیا کہ ہم چونکہ قریش سے خاندانی عصبیت رکھتے ہیں اور بنی طی اور بنی تمیم قریش کی عظمت کو کبھی بھی تسلیم نہیں کرسکتے، اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا جھوٹا پیغمبر بھی قریش کے سچے نبی سے بہتر ہے۔
Top