Tafseer-e-Haqqani - Ash-Shu'araa : 105
كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِ اِ۟لْمُرْسَلِیْنَۚۖ
كَذَّبَتْ : جھٹلایا قَوْمُ نُوْحِ : نوح کی قوم الْمُرْسَلِيْنَ : رسولوں کو
نوح کی قوم نے بھی رسولوں کو جھٹلایا تھا
ترکیب : اتبعک جملہ حال ہے ضمیر نؤمن سے ارذلون جمع ارذل بمعنی ذلیل ماعلمی ظاہر میں ما استفہامیہ سے محل رفع میں بسبب مبتدا ہونے کے وعلمی اس کی خبر اور ممکن ہے کہ نافیہ ہو بما کی ب دونوں تقدیر پر علمی سے متعلق ہے دوسری تقدیر پر خبر کو مضمر ماننا پڑے گا بعد ای بعد انجائہ۔ تفسیر : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قصہ کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) کا عبرتناک قصہ بیان فرماتا ہے۔ اگرچہ سورة اعراف و سورة ہود میں یہ قصہ مشرحاً بیان ہوچکا ہے لیکن چونکہ اسلوب قرآن مؤرخانہ نہیں کہ جن کے نزدیک مکرر بیان کرنا عیب ہے بلکہ واعظانہ کہ جن کے نزدیک عبرتناک قصوں کو بمقتضائے مقام و حالات قوم مکرر بیان فرمانا عین حکمت ہے۔ خصوصاً نئے نئے اسلوب سے اس لیے اس کا پھر یہاں اعادہ کیا۔ حضرت نوح ( علیہ السلام) کا ساڑھے نو برس تک ان میں وعظ و پند فرمانا اور پھر ان کا ہدایت پر نہ آنا آنحضرت ﷺ کے لیے کامل تسلی اور ان کے اخیر نتیجہ غرق ہونے سے حضرت ﷺ کے ہم وطنوں سرکش قریش کو کامل تحدید ہے۔ کذبت قوم نوح المرسلین اگرچہ قوم نوح کے صرف نوح ( علیہ السلام) رسول تھے مگر جبکہ ان کو جھٹلایا تو سب نبیوں کو جھٹلایا کیونکہ دین کی باتوں میں سب ایک زبان تھے ایک کی تکذیب سب کی تکذیب۔ اس لیے المرسلین جمع کا صیغہ آیا کہ ان کے فعلِ بد کی پوری شناعت اور کامل قباحت ظاہر ہوجائے اور اس لیے بعد کے قصوں میں یہی صیغہ استعمال ہوا ہے اخوھم نوح نوح ان کے بھائی تھے کیونکہ ایک قوم کے تھے۔ نوح ( علیہ السلام) نے اولاً یہی فرمایا الا تتقون کہ کیوں نہیں خدا سے ڈرتے جو بت پرستی کرتے ہو قوم نوح میں بھی بت پرستی کا رواج تھا۔ یہ تو ان کا وصف تھا اب اپنی حالت ذکر کرتا ہے انی لکم رسول کہ میں تمہارے لیے خدا کی طرف سے پیغام لے کر آیا ہوں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا اور میں امانت دار بھی ہوں یعنی اس پیغام رسانی میں کچھ کمی زیادتی نہیں کرتا ہوں جب یہ ہے تو فاتقوا اللہ واطیعون اللہ سے ڈرو کہ اس کے احکام کی مخالفت کرنا اور میرا کہا مانو وما اسئلکم علیہ من اجر میں تم سے اس پر کچھ مانگتا نہیں یعنی بےغرض ہوں کیونکہ غرض مند کی بات میں دغدغہ ہوتا ہے۔ البتہ مزدوری تو میری ہے مگر تم پر نہیں ‘ رب العالمین پر ہے۔ پھر اسی کلمہ کا اعادہ کیا تاکید کے لیے۔ فاتقوا اللہ واطیعون ان سب باتوں کے بعد ان بدبختوں نے یہ عذر کیا انؤمن لک الخ کہ ہم تجھ پر کیونکر ایمان لائیں تجھ پر تو پاجی لوگ ایمان لائے ہیں جو احمق اور بدعقل ہوتے ہیں اور کوئی دنیاوی لالچ ان کا مقصود ہوتا ہے یعنی دل سے نہیں۔ نوح (علیہ السلام) پر غریب غربا لوگ ایمان لے آئے تھے اور ہمیشہ ہر کار میں یہی پیشقدمی کیا کرتے ہیں کیونکہ راہ حق میں مانع جاہ و حشم دنیاوی ہے۔ سو یہ ان کے ہاں نہیں ہوتا اس لیے نوح نے فرمایا وما علمی الخ کہ ان کی حقیقت حال سے اللہ آگاہ ہے مجھے ان کے باطن سے کیا کام بظاہر مومن ہیں مومنوں کو دور نہ کروں گا آخر کار نہ مانا غرق ہوئے۔
Top