Maarif-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 105
كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِ اِ۟لْمُرْسَلِیْنَۚۖ
كَذَّبَتْ : جھٹلایا قَوْمُ نُوْحِ : نوح کی قوم الْمُرْسَلِيْنَ : رسولوں کو
تو قوم نوح نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا
قصہ سوم حضرت نوح (علیہ السلام) باقوم او قال اللہ تعالیٰ کذبت قوم نوح ن المرسلین .... الیٰ .... وان ربک لھو العزیز الرحیم۔ یہ تیسرا قصہ نوح (علیہ السلام) کا ہے اس سے مقصود بھی آنحضرت ﷺ کی تسلی ہے کہ نوح (علیہ السلام) نے ایک طویل عرصہ تک اپنی قوم کی تکذیب پر صبر کیا۔ نوح (علیہ السلام) نے اول اپنی قوم کو خدا سے ڈرایا۔ الا تتقون۔ بعد ازاں اپنی رسالت اور امانت کو بتلایا۔ انی لکم رسول امین۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ کی طرح نوح (علیہ السلام) بھی اپنی قوم میں امانت و صداقت کے ساتھ مشہور و معروف تھے چناچہ فرماتے ہیں قوم نوح (علیہ السلام) نے سارے رسولوں کو جھٹلایا۔ کیونکہ سب رسولوں کا دین ایک ہے اور ایک کا جھٹلانا سب کو جھٹلانا ہے جبکہ اس قوم کے نسبی بھائی نوح (علیہ السلام) نے بمقتضائے شفقت ان سے کہا کیا تم لوگ خدا سے ڈرتے نہیں کہ شرک اور بت پرستی میں مبتلا ہو یہاں نسب کے اعتبار سے بھائی ہونا مراد ہے قوم اور وطن کے اعتبار سے بھائی ہونا مراد نہیں تحقیق میں تمہاری طرف خدا کا پیغام لے کر آیا ہوں اور امانت دار ہوں جیسا کہ تمہیں میری امانت و صداقت خوب معلوم ہے پس تم اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو شرک اور بت پرستی کو چھوڑو اور ایمان لاؤ۔ اور اس نصیحت میں میری کوئی غرض نہیں میں اس دعوت و نصیحت پر اور تبلیغ رسالت پر تم سے کوئی بدلہ اور معاوضہ نہیں چاہتا۔ میرا اجر تو صرف رب العلامین پر ہے میں تم سے کسی قسم کے نفع کا طلبگار نہیں میرا مقصود تو صرف تمہاری نصیحت اور خیر خواہی ہے پس تم اللہ کی نافرمانی اور اس کے عذاب سے ڈرو اور بےچون و چرا میری اطاعت کرو تاکہ عذاب جہنم سے بچ سکو اور ثواب جنت حاصل کرسکو۔ مگر بڑے سنگدل تھے کہ اس مشفقانہ اور ہمدردانہ نصیحت پر کان نہ دھرا اور بولے کیا ہم تجھ پر ایمان لے آئیں حالن کہ کمینوں اور رذیلوں نے تیرا اتباع کیا ہے۔ چند غریبوں اور چند پیشہ وروں نے تیری پیروی کی ہے جن کو دنیا کی کوئی عزت اور وجاہت حاصل نہیں یہ ناقدرے اور بےحیثیت لوگ ہیں ظاہر میں تیرے تابع ہیں اور باطن میں تیرے مکالف ہیں ایسے غریبوں اور ناداروں کے ساتھ بیٹھنے میں ہم جیسوں کو عار آتی ہے۔ نوح (علیہ السلام) نے کہا مجھے کیا معلوم کہ وہ کیا کرتے ہیں اخلاص کی راہ سے کرتے ہیں یا نفاق کی راہ سے میرا کام تو صرف اتنا ہے کہ میں لوگوں کو اللہ کی طرف بلاؤں مجھے ان کے باطن کی تحقیق کی ضرورت نہیں جو ظاہر میں ایمان لے آئے وہ میرے نزدیک مقبول ہے باقی ان کے ان کے باطن کا حساب سو وہ صرف میرے پروردگار کا کام ہے جو ان کے باطن پر مطلع ہے کاش تم یہ بات سمجھو۔ مطلب یہ ہے کہ مجھے ان کے اعمال و افعال سے بحث نہیں اور نہ مجھے ان کے باطنی اخلاص اور نفاق کی تحقیق کی ضرورت ہے۔ میرا حکم طاہر پر چلتا ہے میرا کام تو حق کی دعوت دینا ہے جو ایمان لائے اور میری اطاعت کرے وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں خواہ وہ شریف ہو یا کمینہ امیر ہو یا فقیر آخرت کا معاملہ ایمان اور اطاعت پر ہے وہاں کسی پیشہ کے فرق کو دیکھ کر معاملہ نہ ہوگا۔ آخرت کی عزت و ذلت ایمان اور کفر سے وابستہ ہے صنعت و حرفت اور مال و دولت سے اس کا کوئی تعلق نہیں اب رہی یہ بات کہ یہ لوگ اخلاص سء ایمان لائے یا کسی دنیاوی منفعت کے لیے سو یہ کام میرے متعلق نہیں دل کا حال اللہ ہی کو معلوم ہے اور وہی حساب لینے والا ہے کفار کے اس کلام سے یہ مترشح ہوتا تھا کہ اگر آپ ﷺ ان رذیلوں اور کمینوں کو اپنے پاس سے نکال دیں یا ہٹا دیں تو ہم آپ ﷺ کی طرف توجہ کرسکتے ہیں اس لیے نوح (علیہ السلام) نے فرمایا اور میں ایمان لانے والوں کو اپنے پاس سے ہٹانے والا نہیں خواہ تم ایمان لاؤ یا نہ لاؤ۔ میں تو صرف ڈرانے والا اور حق کو واضح کرنے والا ہوں اللہ تعالیٰ نے مجھ کو حق کی دعوت کے لیے بھیجا ہے مجھے امیر اور فقیر سے کوئی بحث نہیں تو وہ کافر بولے کہ اے نوح (علیہ السلام) اگر تو اپنی دعوت اور تبلیغ سے باز نہ آیا تو ضرور سنگسار شدہ لوگوں میں سے ہوجائیگا یعنی تجھ کو ضرورت سنگسار کردیا جائیگا نوح (علیہ السلام) یہ بات سن کر ان کے ایمان سے ناامید ہوگئے تو یہ دعا مانگی اے میرے پروردگار میری قوم نے مجھ کو جھٹلایا اور اس درجہ تکذیب پر تل گئی ہے کہ اب اس کے بعد تصدیق اور ایمان کا کائی امکان نظر نہیں آتا۔ پس میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کر دیجئے یعنی ان سے میرا انتقام لے لیجئے جیسا کہ دوسری جگہ ہے۔ انی مغلوب فانتصر۔ اور مجھ کو اور میرے ساتھ جو مسلمان ہیں ان کو اپنے قہر اور عذاب سے نجات دے تب ہم نے اس کو اور جو اس کے ساتھ بھری ہوئی کشتی میں تھے ان کو نجات دی پھر ان کے نجات دینے کے بعد ہم نے باقیوں کو غرق کردیا بیشک اس واقعہ میں خدا کی قدرت کی ایک زبردشت نشانی ہے اور قوم نوح میں اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں ہوئے اور اے نبی بیشک تیرا پروردگار وہی ہے زبردست مہربان کہ اس نے کافروں سے اپنے پیغمبر کا انتقام لے لیا اور مسلمانوں کو اپنی رحمت سے بچا لیا اور تمام کافر قہر الٰہی کے طوفان اور سیلاب میں بہا کر ہلاک کر دئیے گئے۔
Top