Asrar-ut-Tanzil - An-Naml : 67
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا وَّ اٰبَآؤُنَاۤ اَئِنَّا لَمُخْرَجُوْنَ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) ءَاِذَا : کیا جب كُنَّا : ہم ہوجائیں گے تُرٰبًا : مٹی وَّاٰبَآؤُنَآ : اور ہمارے باپ دادا اَئِنَّا : کیا ہم لَمُخْرَجُوْنَ : نکالے جائیں گے البتہ
اور فکار لوگ کہتے ہیں جب ہم اور ہمارے باپ دادا مٹی ہوجائیں گے تو کیا ہم (پھر زندہ کرکے قبروں سے) نکالے جائیں گے
آیات 67 تا 82 اسرار و معارف ان کے شک اور انکار کی بنیاد اس بات پر ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ مر کر تو ہم مٹی میں مل جائیں گے یا ہمارے اجداد جو خاک ہوچکے تو کیا پھر سب لوگ زمین سے نکال کھڑے کیے جائیں گے ؟ بھئی ایسی باتیں پہلے بھی کہی جاتی رہی ہیں اور اب ہم سے بھی کہی جارہی ہیں یہ محض کہانیاں ہیں حقیقت سے ان کا واسطہ ہی نہیں کہ دیجیے کہ انکار تو کر رہے ہو مگر اپنے سے پہلے انکار کرنے والوں کا انجام تو ذرا دیکھ لو زمین پر پھر کر دیکھو کیسی کیسی تباہی سے دوچار ہوئے چان کہ تخلیق کے دلائل ابھی گزر چکے تھے لہذا یہاں انہیں دہرایا نہیں گیا بس عقل کی حد بیان کردی گئی کہ اس سے آگے ایمان کا کام ہے۔ پھر کہتے ہیں اگر آپ واقعی سچ کہ رہے ہیں وقت بتا دیجیے کہ قیامت کس روز واقع ہوگی یعنی اگر آپ وقت ہی نہیں بتا سکتے تو پھر یہ کیسے مان لیں کہ ضرور واقع ہوگی آپ فرما دیجیے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ قیامت کے کچھ آثار یعنی اللہ کے عذاب بالکل تمہاری پیٹھ پیچھے موجود ہوں یعنی آیا ہی چاہے ہوں لہذا تم عذاب کی طلب میں جلدی نہ دکھاؤ۔ یہ تو رب دوالجلال کا احسان ہے کہ مہلت عطا فرماتا ہے اس لیے کہ آپ کا پروردگار لوگوں پر بہت مہربان ہے یہ تو لوگ ہی ہیں کہ ان کی اکثریت اللہ کا شکر ادا نہیں کرتی۔ اور تیرا پروردگار تو ایسا ہے کہ جو کچھ لوگوں نے دلوں کی گہرائیوں میں چھپا رکھا ہے اسے بھی جانتا ہے ایسے ہی جیسے جو کچھ یہ ظاہر کرتے ہیں جانتا ہے اور اس کا علم تو اس کی شن کے مطابق ہے زمینوں اور آسمانوں کے سب بھید اور غائب باتیں تو لوح محفوظ تک میں لکھی ہیں۔ بلکہ بہت سے غیب تو قرآن نے بیان کردیئے کہ بنی اسرائیل کے علماء میں جن واقعات پر اختلاف تھا اور کوئی فریق بھی یقینی بات نہ بتا سکتا تھا ان واقعات کو صحت کے ساتھ بیان کردیا اور یہ کتاب جس طرح گزشتہ واقعات کی حقیقت بیان کرتی ہے اسی طرح آئندہ کے لیے بھی درست رہنمائی کرتی ہے کہ یہ صرف کتاب نہیں بلکہ اللہ کی رحمت ہے انکے لیے جو بھی اس پر ایمان کی دولت سے بہرہ ور ہوں۔ اور وہ وقت آرہا ہے جو فی الحال لوگوں سے غائب اور الللہ کے علم میں ہے کہ اللہ لوگوں کے درمیان اپنے حکم کے مطابق فیصلہ کریں گے اور وہ غالب ہے کوئی اسے روک نہیں سکتا اور جانتا ہے کچھ بھی اس سے چھپایا نہیں جاسکتا۔ اگر یہ آپ کی بات نہیں سنتے تو ان کی مثال مردوں کی ہے آپ مردوں کو کیا سنائیں گے یا اس بہرے کی ہے جو بہرا بھی ہو اور پیٹھ پھیر کر چل بھی دے یا ایسے انسان کی ہے جو اندھا ہو اور وہ سن کر کیسے راہ پاسکتا ہے ہاں آپ کی بات سن کر مستفید ہونا یہ ان لوگوں کو نصیب ہوگا جو ہماری آیات پر ایمان لائیں اور مسلمان ہوں ، فرمانبردار ہوجائیں۔ سماع موت : ان آیات کا تعلق مردوں کے سننے سے براہ راست نہیں اس لیے کہ یہاں کفار کو مردہ سے تشبیہ دی گئی اور یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ کفار آپ ﷺ کی بات نہیں سنتے تھے ہاں انہیں سن کر فائدہ نہیں ہوتا تھا جیسے مردہ نیک بات سن کر اس پر عمل نہیں کرسکتا وہی حال ان کا تھا گویا مراد ایسا سننا ہے جو مفید ہو یعنی " سماع نافع " پھر مقابل بھی زندہ نہیں لایا گیا بلکہ فرمایا آپ ان لوگوں کو سنوا سکتے ہیں جو ایمان لائے۔ یعنی آپ کے ارشادات سن کر فائدہ حاصل کرنا مومن کا کام ہے اس مسئلہ میں کہ مردے سنتے ہیں یا نہیں صحابہ کرام سے اختلا روایت کیا جاتا ہے س کو بہت آسان انداز میں مفتی محمد شفیع (رح) نے بھی حل فرما دیا ہے اور حق یہ ہے کہ یہ اختلاف مختلف مواقع اور افراد کے بارے ہے مطلق مردہ سنتا ہے یا نہیں کے بارے نہیں ہے کہ قرآن میں جس قدر آیات اس موضوع پر ہیں وہ صرف کفار کے حق میں ہیں اور اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ مردے سنتے نہیں ہیں اور مردوں کے سننے کے حق میں موجود ہے جیسے شہداء کے بارہ کہ وہ زندہ ہیں رزق دئے جاتے ہیں اور یہ بھی ہے ویستبشرون بالذی لم یلحقوبھم۔ کہ ان لوگوں کے احوال سے خوش ہوتے ہیں جو ان کے پسماندگان ابھی دنیا میں ہیں یعنی ان کی نیکی پر خوشی کرتے ہیں یعنی روح میں نہ صرف شعور و ادراک ہوتا ہے بلکہ پچھلوں کے حالات سے واقف بھی ہوسکتا ہے اگر یہ کہا جائے کہ یہ تو صرف شہداء کی بات ہے تو یہ ثابت ہوگیا کہ سارے مردے سننے سے محروم نہیں ہوتے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بھی ان صحیح احادیث پہ اعتبار کر کے سماع موتی کا جواز بتاتے ہیں جن میں ارشاد ہے کہ مسلمان بھائی کی قبر پر گزرو تو سلام کہو وہ سلام کا جواب بھی دیتا ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ نہ تو سارے مردے سنتے ہیں اور نہ ہر کوئی سنا سکتا ہے اللہ چاہے تو جسے سنوا دے اور جس کی بات سنوا دے اور یہی اصول زندوں میں بھی ہے کہ ہر کام اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے۔ دابتہ الارض : جب قیامت کا وعدہ پورا ہونے کا وقت آئے گا تو زمین سے ایک عجیب و غریب جانور نکلے گا جو لوگوں سے باتیں کرے گا اور پھر انہیں پتہ چلے گا جو یقین نہیں کرتے تھے مگر تب وقت گزر چکا ہوگا حضور اکرم ﷺ نے قیامت کی نشانیوں میں سورج کا مغرب سے نکلنا اور اس جانور کا زمین سے نکلنا ارشاد فرمایا ہے مگر تب توبہ کا وقت گزر چکا ہوگا اور لوگ اس عجیب جانور کو جو زمین سے برآمد ہوگا اور لوگوں سے باتیں کرے گا اور بہت بڑا اور عجیب و غریب ہوگا دیکھ کر حیران ہوں گے اور اللہ کی قدرت کا اندازہ کرسکیں گے مگر ایمان لانے کا وقت گزر چکا ہوگا کہ اس کر فورا بعد قیامت قائم ہوجائے گی انسانی مزاج آج اسی سمت رواں ہے کہ کتاب اللہ اور انبیا کی حکمت آموز باتوں پہ اعتراض کرتے ہیں اور شعبدہ بازی پر یقین کرلیتے ہیں۔
Top