Al-Qurtubi - An-Naml : 67
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا وَّ اٰبَآؤُنَاۤ اَئِنَّا لَمُخْرَجُوْنَ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) ءَاِذَا : کیا جب كُنَّا : ہم ہوجائیں گے تُرٰبًا : مٹی وَّاٰبَآؤُنَآ : اور ہمارے باپ دادا اَئِنَّا : کیا ہم لَمُخْرَجُوْنَ : نکالے جائیں گے البتہ
اور جو لوگ کافر ہیں کہتے ہیں کہ جب ہم اور ہمارے باپ دادا مٹی ہوجائیں گے تو کیا ہم پھر قبروں سے نکالے جائیں گے ؟
وقال الذین کفرواء یعنی مشرکین مکہ۔ اذا کنا ترباً وابآئونا ائنا المخرجون نافع یہاں اور سورة عنکبوت میں اسی طرح قرأت کیا کرتے تھے۔ ابو عمرو نے دونوں استفہاموں کے ساتھ پڑھا ہے مگر ہمزہ میں تخفیف کی ہے۔ عاصم اور حمزہ نے دو ہمزہ کے ساتھ پڑھا ہے مگر دونوں ہمزہ کو ثابت رکھتے ہوئے پڑھا ہے۔ دونوں صورتوں میں جو ہم نے ذکر کیا ہے وہ سب ایک ہی ہے۔ کسائی، ابن عامر، رویس اور یعقوب نے ائذا دو ہمزوں کے ساتھ قرأت کی ہے۔ ائنا دونونون کے ساتھ اس صورت میں خبر کے ساتھ پڑھا ہے۔ سورة عنکبوت میں دو استفہاموں کے ساتھ ہے۔ ابو جعفر نحاس نے کہا : قرأت اذکنا تراباوآبائونا ائنا لمخرجون خط کی مواقف بہت اچھی ہے۔ ابو حاتم نے اس میں اس کے ساتھ معارضہ کیا ہے اور کہا یہ اس کے کلام کا معنی ہے۔ اذا استفہام نہیں آئنا استفہام ہے اس میں ان ہے تو یہ کیسے جائز ہے کہ وہ اس میں عمل رے جو اس سے قبل استفہام کی حیز میں ہے ؟ جب اس میں یہ استفہام ہو تو پھر یہ بہت ہی بعیدی صورتحال ہوگی جب اس کے بارے میں سوال ہو تو یہ اس وجہ سے سے مشکل ہوگا جو ہم نے ذکر کیا۔ ابو جعفر نے کہا : میں نے محمد بن ولید کو کہتے ہوئے سنا ہم نے ابو العباس سے قرآن کی آیت میں موجود ایک مشکل کے بارے میں سوال کیا وہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : وقال الذین کفرواھل ندلم علی رجل یمیتکم اذا مزقتم کل ممزق انکم لفی خلق جدید۔ (سبا) کہا اذا میں ینبئکم کا عملمحال ہے، کیونکہ وہ اس وقت انہیں آگاہ کرے گا۔ اگر اس میں انکا مابعد اس میں عمل کرے تو معنی صحیح ہوگا اور لغت عرب میں غلط ہے کہ ان کا ماقبل اس کے مابعد میں عمل کرے یہ واضح سوال ہے۔ میری رائے تھی کہ اسے اس سورت میں ذکر کیا جائے جہاں یہ آیت ہے جہاں تک ابوعبید کا تعق ہے تو وہ نافع کی قرأت کی طرف مائل ہوا ہے اور جنہوں نے دونوں استفہاموں کو جمع کیا ہے ان کا رد کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے استدلال کیا ہے : افائن مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم (آل عمرا ان : 144) اور اللہ تعالیٰ کے فرمان : افائن مت فھم الخلدون۔ (الانبیائ) سے استدلال کیا ہے، یہ ابو عمرو، عاصم، حمزہ طلحہ اور اعرج کا رد ہے۔ اس سے کوئی چیز لازم نہیں آتی اور آیت میں جو کچھ آیا ہے اس کے مشابہ بھی کوئی چیز نہیں دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ شرط اور اس کا جواب دونوں ایک شے کے قائم مقام ہیں۔ افائن مت فھم الخلدون کا معنی ہے افان مت خلدو اس کے مثل ازید منطلق ہے یہ نہیں کہا جاتا ازیدا منطلق کیونکہ یہ دونوں ایک چیز کے قائم مقام ہیں آیت اس طرح نہیں کیونکہ دوسرا جملہ مستقل جملہ ہے۔ اس میں استفہام درست ہے اور پہلا جملہ بھی مستقل کلام ہے اس میں بھی استفہام درست ہے۔ جس نے دور سے سے استفہار کو حذف کیا اور پہلے میں ثابت رکھا تو اس نے پڑھا ائذا کنا ترابا و ابائونا اننا دوسرے سے اسے حذف کردیا کیونکہ کلام میں اس پر دلیل ہے جو انکار کے معنی میں ہے۔
Top