Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 32
قَالَتْ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِیْ فِیْۤ اَمْرِیْ١ۚ مَا كُنْتُ قَاطِعَةً اَمْرًا حَتّٰى تَشْهَدُوْنِ
قَالَتْ
: وہ بولی
يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا
: اے سردارو !
اَفْتُوْنِيْ
: مجھے رائے دو
فِيْٓ اَمْرِيْ
: میرے معاملے میں
مَا كُنْتُ
: میں نہیں ہوں
قَاطِعَةً
: فیصلہ کرنے والی
اَمْرًا
: کسی معاملہ میں
حَتّٰى
: جب تک
تَشْهَدُوْنِ
: تم موجود ہو
( ملکہ سبا نے) کہا ، اے درباریو ! مجھے رائے دو میرے معاملے میں ۔ میں نہیں ہوں قطعی فیصلہ کرنے والی کسی معاملے کا یہاں تک کہ تم حاضر ہو
ربط آیات ہد ہدنے سلیمان (علیہ السلام) کو خبر دی کہ ملک سبا کے لوگ اور خود مکہ سورج پرست ہیں ۔ کفر و شرک میں مبتلا ہیں اور ان کے برے اعمال کو شیطان ان کو مزید کر کے دکھاتا ہے لہٰذا وہ ہدایت کا راستہ اختیار کرنے سے قاصر ہیں ، نیز یہ کہ وہ لوگ خدائے وحدہٗ لا شریک کے سامنے سجدیہ ریز نہیں ہوتے جو ظاہر و باطن ہر چیز کو جانتا ہے اور مخفی چیزوں کو آسمان و زمین سے نکالتا ہے ، وہی معبود بر حق ہے ، وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔ یہ خبر سن کر سلیمان (علیہ السلام) نے اس کی تصدیق کرنے کا فیصلہ کیا اور اسی ہد ہد سے فرمایا کہ میرا یہ خط لے جا کر ملکہ کے سامنے ڈال دو ، پھر دیکھیں گے کہ وہ اس کا کیا جواب دیتے ہیں ، چناچہ ہد ہدنے وہ خط ملکہ سبا کو اس کے خاص کمرے میں پہنچا یا خط کا مضمون گزشتہ درس میں گزر چکا ہے کہ اس کو بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع کیا گیا تھا اور قوم سبا سے کہا گیا تھا کہ تم میرے مقابلے میں نہ آنا بلکہ اطاعت گزار بن کر میرے پاس چلے آئو ۔ ملکہ سبا کی مشورہ طلبی جب ملکہ نے یہ خط پڑھا تو اس سے اس معاملہ میں اپنے دربایوں سے مشورہ لینا ضروری سمجھا ، چناچہ تمام عمائدین کو دربار میں جمع کر کے کہنے لگی قالت یا ایھا الملواء افتونی فی امر اے سربر آور وہ لوگو ! میرے اس معاملہ میں مجھے مشورہ دو ۔ اس مضمون کا خط آیا ہے اب تم بتائو کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے کیونکہ ما کنت قاطعۃ امر حتی تشھدون میں اس معاملہ میں ذاتی طور پر کوئی فیصلہ کرنے کے حق میں نہیں ہوں جب تک کہ تم حاضر ہو کر مجھے مشورہ نہ دو ۔ ملکہ صاحب اختیار تھی اور جیسا کہ آگے آ رہا ہے عمائدین حکومت اس کے ہر حکم کی تعمیل پر کمر بستہ تھے ۔ مگر مل کہ درباریوں کے مشورہ کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہتی تھی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ملکہ کا نظام حکومت استبدادی نہیں بلکہ شورانی تھا جو کہ ایک نیک فال ہے۔ ڈکٹیٹر شپ اور مغربی جمہوریت پرانے زمانے میں ملوکیت یا ڈکٹیٹر شپ عام تھی ۔ بادشاہ مسلمان ہو یا غیر مسلم اس کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون کی حیثیت رکھتا تھا جس کے خلاف نہ کوئی داد ہوتی نہ فریاد ۔ بادشاہ کوئی بھی ملکی فیصلہ کرنے کے لیے کسی وزیر ، مشیر ، دانشور ، عالم ، فقیہ ، سائنس دان کے مشورہ کا پابند نہیں ہوتا تھا اس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ برسر اقتدار طبقہ غریب ، رعایا پر ظلم و ستم کا بازار گرم رکھتا اور انہیں اپنی آزادی کیلئے سوچنے کا موقع بھی نہ دیتا ۔ آج بھی دنیا میں اس قسم کے نظام موجود ہیں جو حکومت کی پالیسی کے خلاف ایک لفظ تک سننا برداشت نہیں کرتے۔ ایسے لوگ ہوس ملک گیری میں مبتلا ہوتے ہیں ۔ اگر کسی کے مد مقابل آنے کا شبہ بھی پڑجائے تو اس کو تہس نہس کر کے رکھ دیتے ہیں ۔ روس ، چین اور دیگر کیمونسٹ ممالک میں اسی قسم کی ڈکٹیٹر شپ رائج ہے کبھی روس اور چین مسلمانوں کے گڑھ ہوا کرتے تھے ، مگر بےدین حاکموں نے ظلم و ستم کی انتہا کردی ، وہاں کی مسجدیں ی گرا دی گئیں ، کتابیں ضائع کردیں اور دینی مدرسے ویران کردیے۔ اب ان ممالک میں آزادی کی لہر پھر اٹھی ہے تو حکمران طبقہ کے بھی ہوش ٹھکانے آنے لگے ہیں ، ان کو بھی آزادی کی صبح طلوع ہوتی نظر آ رہی ہے ورنہ انہوں نے چینی ثقافتی انقلاب کے دس سال بڑی کسمپرسی میں گزرے ، ملوکیت کے زمانے میں امریکہ میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا ہے۔ سیاہ فارم مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے رہے اس ملوکیت کی تاریخ ہی یہ رہی ہے کہ اپنے مقابلے میں نہ باپ بیٹے کو برداشت کرتا ہے اور نہ بیٹا باپ کو ، بھائی بھائی کا جانی دشمن بن جاتا ہے اور ہوس اقتدار کے سوا ان کے نزدیک ہر چیز ہیچ ہوتی ہے۔ آج کل دنیا میں جمہوریت (Democracy) کا بڑا چرجا ہے مگر یہ بھی اسلامی نظام حکومت سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ یورپ کی ایجاد کردہ اس لعنت میں آدمیوں کو گنا تو جاتا ہے مگر تولا نہیں جاتا ۔ یعنی ہر عالم ، جاہل ، ہنر مند اور مزدور ایک ہی پلڑے میں ڈال دیئے جاتے ہیں اور پھر فیصلے کثرت رائے سے ہوتے ہیں ۔ اس نظام میں اہل اور نااہل میں کوئی امتیاز نہیں رکھا جاتا ، اور یہی اس نظام کی سب سے بڑی خرابی ہے۔ یہ کثرت رائے کا نتیجہ تھا کہ برطانوی پارلیمنٹ نے دو مربع مردوں کے آپس میں لواطت کے فعل کو جرائم کی فہرست سے خارج کردیا ۔ کسی زمانے میں امریکہ والوں نے کثرت رائے سے یہ قانون منظور کیا تھا کہ شراب کی کشید ، فروخت اور خرید کوئی جرم نہیں ۔ مغربی جمہوریت کی اسی خرابی کے متعلق علامہ اقبال (رح) نے کہا تھا ؎ بترس از طرز جمہوری غلام پختہ کار ے شو کہ از مغز دو صد خر فکر انسان نمی آید ایسی جمہوریت سے دور بھاگو اور کسی اچھے اور پختہ کا ر آدمی کے تابعدار بن جائو کیونکہ دو سو گدھے مل کر بھی ایک انسانی دماغ کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اسلامی شورانی نظام ان دو مذکور نظاموں کے بر خلاف اسلامی نظام حکومت شورانی بھی ہے اور اس میں جمہوری قدریں بھی پائی جاتی ہیں ۔ مسلمانوں کا خلیفہ یا حاکم مستبد نہیں ہوتا ، نہ وہ اپنی من مانی کرتا ہے بلکہ ہر انتظامی معاملہ میں اپنی شوریٰ کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے اسلام میں ارباب حل و عقد سے مشاورت اس قدر ضروری ہے کہ اللہ نے اپنے نبی کو بھی اس کا پابند بنا دیا ہے وشاورھم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی اللہ ( آل عمران : 951) ایسا معاملہ جس کے متعلق وحی نہ آئی ہو ۔ اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرلیا کریں ، پھر جب باہمی مشاورت سے کسی نتیجے پر پہنچ جائیں تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے وہ کام کر گزریں ۔ فقہائے کرام اس مسئلہ میں بحث کرتے ہیں کہ اسلامی نظام حکومت میں مشورہ لینا واجب ہے یا محض مستحب جس سے عمائدین کی دلجوئی ہو ۔ مفسر قرآن امام ابوبکر جصاص ؓ فرماتے ہیں کہ اس آیت کے تحت حاکم کے لیے مشورہ لینا واجب ہے۔ ظاہر ہے کہ خود پیغمبر اسلام کے لیے ضروری ہے ، تو دوسرے لوگ کس شمار میں ہیں البتہ کسی ایسے معاملہ میں مشورہ کی ضرورت نہیں ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں یا پیغمبر نے اپنی زبان سے حل فرما دیا ہو ، مثلاً شراب اور جوئے ، چوری اور ڈکیتی ، جھوٹ اور غیبت و زنا اور لواطت وغیرہ معاملات کے جو زیاعہ و جواز کے لیے کسی مشورے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کا فیصلہ تو خود اللہ تعالیٰ نے کردیا ہے ، لہٰذا ایسے معاملات میں اگر ساری دنیا بھی مل کر کسی حلال کو حرام یا حرام کو حلال کرنا چاہے تو نہیں کرسکتی ، یہاں مشاورت نہیں چل سکتی۔ اسی طرح کرنی چاہئے کہ اس بات پر رائے شماری کر الی جائے کہ نماز پڑھنی چاہئے یا نہیں ، روزہ ضروری ہے یا نہیں ۔ حج ساقط ہو سکتا ہے یا نہیں یا زکوٰۃ کی ادائیگی ہونی چاہئے یا نہیں ۔ یہ طے شدہ معاملات ہیں اور ان پر کوئی سودے بازی نہیں ہو سکتی مشاورت ایسے معاملات میں ہوگی جہاں وحی اسی خاموش ہوگی یا پیغمبرکا فرمان موجو نہیں ہوگا ۔ یہی اسلامی نظام حکومت کی اصل روح ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ آپس میں مشورہ کرلیا کرو کہ اس میں نقصان نہیں ہوتا بلکہ فائدہ وہی ہوتا ہے جب بہت سے لوگ مل کر اپنی اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں تو صحیح بات کھل کر سامنے آجاتی ہے حضور ﷺ کا یہ فرمان بھی ہے کہ جس نے مشورہ کیا ۔ وہ کبھی پشیمان نہیں ہوگا ۔ حضور نبی کریم ﷺ خود خلفائے راشدین اور اصحاب حل و عقد سے مشورہ طلب کیا کرتے تھے اور فیصلہ شدہ معاملات پر بھی پیرا ہونے کا حکم ہے۔ وہاں مشورے کی ضرورت نہیں ۔ مشورہ کرنا سے تو موقع محل کی طوالت کے مطابق صلح و جناب کے معاملات میں مشورہ کرو ۔ دوسری اقوام سے تعلقات کے قیام کے لیے آپس میں مشورہ کرو۔ اللہ نے قرآن میں اہل ایمان کی یہ تعریف فرمائی ہے وامر ھم شوریٰ بینھم ( الشوریٰ : 83) ان کے معاملات آپس میں مشاورت سے طے پاتے ہیں۔ درباریوں کا مشورہ بہر حامل ملکہ سبا نے جب اپنے عمائدین سے مشورہ طلب کیا قالوا نحن اولو قوۃ تو وہ کہنے لگے کہ ہم بڑے طاقتور ہیں ۔ ہمارے پاس فوج اور پولیس ہے جو ہر قسم کے ہتھیاروں سے لیس ہے۔ رسد و کمک کی بھی کوئی کمی نہیں ۔ ہمارے پاس ماہرین ضرب و حرب موجود ہیں ، لہٰذا واولو باس شدید ہم سخت جنگجو لوگ ہیں ۔ لڑائی میں پشت پھیر کر بھاگنے والے نہیں ہیں ۔ ہم آپ کے ایک اشارے پر جنگ میں کود سکتے ہیں باوجود والامر الیک ظظری ماذا تامرین معاملہ تمہارے ہاتھ میں ہے یعنی جنگ کا فیصلہ کرنا تمہارے اختیار میں ہے ہم تو تعمیل حکم کے لیے بالکل تیار ہیں اور اگر آپ جنگ کی بجائے صلح صفائی کا فیصلہ کریں تو ہم پھر بھی حاضر ہیں ۔ بہر حال ان لوگوں نے اپنی حیثیت کے مطابق رائے دی مگر فیصلہ ملکہ پر ہی چھوڑ دیا ۔ ملکہ کے خیالات اس کی دانشمندی کو ظاہر کرتے تھے ۔ کہنے لگی قالت ان الملوک اذا دخلوا قریۃ افسدوھا جب فاتح بادشاہ کسی ملک میں داحل ہوتے ہیں تو اس کو خراب کردیتے ہیں ۔ وجعلوا اعزۃ اھلھا اذلۃ اور وہاں کے با عزت لوگوں کو ذلیل و خوار کردیتے ہیں وکذلک یفعلون اور عام طور پر وہ ایسا ہی کرتے ہیں ۔ ملکہ سبا نے یہ تجربے کی بات کی تھی جس کی ساری دنیا شاہد ہے۔ ہزاروں سال سے جنگ و جدل کا نتیجہ یہ نکلتا آ رہا ہے کہ مفتوح قوم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جاتی ہے ملوک اپنے مد مقابل کو کبھی برداشت نہیں کرتے کسی پر ذرا بھی شبہ پڑجائے تو اسے تہس نہس کر کے رکھ دیتے ہیں ۔ فرعون کے واقعات سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ذرا ذرا سی بات پر لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتا تھا۔ نمرود کا بھی یہی شیوہ تھا ۔ مابعد زمانے میں چنگیز اور ہلاکو کے مظالم کے یاد نہیں ۔ پھر انگریز کی باری آئی تو اس نے بھی ظلم و ستم ڈھانے میں کمی نہیں کی ، چونکہ انگریزوں نے برصغیر میں مسلمانوں سے حکومت چھینی تھی ۔ اس لیے مسلمانوں کو وہ ہمیشہ دبا کر رہتے تھے ، چناچہ انگریز کے ابتدائی دور میں بیشمار مسلمان مارے گئے اور بہت سوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ دہلی میں کنگ ایڈورڈ روڈ پر اکبری مسجد تھی جہاں شاہ عبد القادر (رح) نے بارہ سال تک اعتکاف بیٹھ کر پہلا با محاورہ ترجمہ قرآن لکھا تھا۔ انگریزوں نے یہ مسجدہی گرا دی تھی ، جس کا آج نام و نشان تک باقی نہیں ۔ غرضیکہ ملکہ سبانے اپنے تجربے کی بناء پر ان خیالات کا اظہار کیا کہ اگر سلیمان (علیہ السلام) حملہ آور ہوئے تو …ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے ، لہٰذا اس خط کا جواب کسی بہتر طریقے سے دینا چاہئے نہ کہ فوراً اعلان جنگ کردیا جائے۔ ملکہ سبا سے تحائف چنانچہ ملکہ سبا نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو آزمانے کے لیے یہ فیصلہ کیا وانی مرسلہ الیھم بھدیۃ من ان کی طرف کچھ تحائف بھیجنے والی ہوں۔ فنظرۃ بم یرجع المرسلون پس وجھتی ہوں کہ میرے بھیجے ہوئے لوگ کیا جواب لاتے ہیں ۔ ملکہ سباکا مقصد یہ تھا کہ اگر سلیمان (علیہ السلام) ملوک قسم کے مستبد آدمی ہے تو وہ تحفے تحائف لے کر خوش ہوجائے گا اور حملہ آور نہیں ہوگا اور اگر وہ کوئی اچھا آدمی ہے تو پھر اس کے ساتھ اچھے طریقے سے نپٹا جائے گا ۔ تغیری روایات میں آتا ہے کہ ملکہ نے تحفے میں پانچ سو لونڈیاں ، پانچ سو غلام اور سونے کی پانچ سو اینٹیں سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں بطور تحفہ ارسال کیں۔ یہودی روایات میں چھ ہزار لونڈیوں اور خوبصورت غلام کا ذکر آتا ہے یہ سارا مال بحری راستے سے کشتیوں میں لا کر سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں بھیجا گیا ۔ دریں اثناء اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی خبر دے دی کہ ملکہ سبا ان کے لیے اس قسم کے تحائف بھیج رہی ہے۔ آپ نے اپنے دربار کے جنات کو حکم دیا کہ نو میل کی مسافت تک ایسی سڑک بنا دی جائے جس کا فرش سونے کی اینٹوں کا ہو ۔ پھر سڑک کے کنارے ایسے جانور کھڑے کردیئے گئے جن کا بول و براز سونے کی اینٹوں پر پڑتا تھا۔ سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے دربار کی بھی از سر نو تزئین کی ۔ وہاں پر مختلف عمائدین حکومت کے لیے سونے کی بنی ہوئی کرسیاں اور صوفے سیٹ لگائے غرضیکہ انہوں نے حیرت انگیز طریقے سے شاہی دربار کو پہنچایا ۔ مفسرین بیان کرتے ہیں کہ جب ملکہ سبا کا قافلہ مذکورہ تحائف لے کر قریب پہنچا تو وہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ہم تو سونے کی صرف پانچ سو اینٹیں لائے ہیں جبکہ یہاں تو نو میل لمبی سڑک ہی سونے کی اینٹوں سے بنائی گئی ہے۔ انہوں نے اپنے تحائف کو سلیمان (علیہ السلام) کے مقابلے میں بالکل حقیر سمجھا۔ بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے سونے کی پانچ سو اینٹیں وہیں پھینک دیں کہ اتنا معمولی سا تحفہ سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں کیسے پیش کریں گے ؟ پھر جب وہ شاہی دربار میں پہنچے تو وہاں کی تزئین و آرائش اور دربار کے انتظامات دیکھ کر سکتہ میں آگئے کہ ہم تو تحائف کے ذریعے سلیمان (علیہ السلام) کو مرعوب کرنا چاہتے تھے مگر یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے ۔ بہر حال جب یہ شاہی قافلہ سلیمان (علیہ السلام) کے دربار میں پہنچا تو آپ نے ان کا با وقار طریقہ سے با عزت استقبال کیا ، ان کو بہترین جگہوں پر بٹھایا اور ان کی خاطر مدارت کی ۔ اب اگلی آیات میں واقعہ کا اگلا حصہ آ رہا ہے۔
Top