Urwatul-Wusqaa - An-Naml : 67
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا وَّ اٰبَآؤُنَاۤ اَئِنَّا لَمُخْرَجُوْنَ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) ءَاِذَا : کیا جب كُنَّا : ہم ہوجائیں گے تُرٰبًا : مٹی وَّاٰبَآؤُنَآ : اور ہمارے باپ دادا اَئِنَّا : کیا ہم لَمُخْرَجُوْنَ : نکالے جائیں گے البتہ
اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ جب ہم اور ہمارے آباؤاجداد خاک ہوجائیں گے تو کیا پھر نکالے جائیں گے ؟
یہ لا بجھکڑ کہتے ہیں کہ مرجانے کے بعد دوبارہ ہم کو کون نکالے گا ؟ 67۔ فرمایا منکرین قیامت کہتے ہیں کیا ہم اور ہمارے باپ دادا جب مٹی ہوچکے ہوں گے تو کیا انہیں واقعہ قبروں سے نکالا جائے گا ؟ انہوں نے ایسا کیوں کہا ؟ اس لئے کہ وہ سرے سے یہ جانتے ہی نہیں کہ آخرت کبھی ہوگی بھی یا نہیں ؟ ان کے خیال میں یہ بات پیوست ہوچکی ہے کہ ہم خود پیدا ہوئے ہیں اور خود مرجائیں گے نہ تو کوئی ہمیں پیدا کرنے والا ہے اور نہ ہی کوئی ہمیں مارنے والا ہے اور یہ ان کا کہنا کسی علم کی بنا پر نہیں بلکہ یہ جہالت کے باعث ہے اور جہالت جو کہتی ہے اس کا عقل وفکر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا کیونکہ اگر عقل وفکر کی بات وہ کرتے تو جاہل کیوں کہلاتے جہالت کا کام صرف اپنی بات کہے جانا ہوتا ہے اور اس کی دلیل صرف اور صرف طاقت ہوتی اور اس کے بعد رسم کہنا ہی ان کی سب سے بڑی دلیل ہوتی ہے ، یہ آج سے نہیں بلکہ پیچھے سے رسم اسی طرح چلی آرہی ہے ، پہلوں کے پاس بھی یہی طاقت کا ہتھیار تھا اور اب موجودہ دور کے جاہلوں کے پاس بھی یہی ہتھیار ہے اور طاقت کو کبھی عقل وفکر کی ضرورت پیش نہیں آتی اس کا کام طاقت کے بل پر چلتا ہے جب تک چلتا ہے اس لئے ہم نے طاقت سے کام نکالنے والوں کو ” لال بجھکڑ “ کہا ہے کہ ان کی حماقت ہی دراصل سب سے بڑی دلیل ہوتی ہے اور وہ سینہ ۔۔۔۔۔ سے ایک بات بس کہے جاتے ہیں اور اسی کو وہ دلیل جانتے اور سمجھتے ہیں اس کے متعلق ہماری زبان میں استعمال ہوتا ہے کہ ” خدا نیڑے کے مکا “
Top