Tafseer-e-Haqqani - An-Naml : 67
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا وَّ اٰبَآؤُنَاۤ اَئِنَّا لَمُخْرَجُوْنَ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) ءَاِذَا : کیا جب كُنَّا : ہم ہوجائیں گے تُرٰبًا : مٹی وَّاٰبَآؤُنَآ : اور ہمارے باپ دادا اَئِنَّا : کیا ہم لَمُخْرَجُوْنَ : نکالے جائیں گے البتہ
اور منکروں نے کہہ دیا کہ کیا جب ہم اور ہمارے باپ دادا مر کر مٹی ہوگئے تو کیا ہم پھر زمین سے نکالے جائیں گے،
ترکیب : اذا کا عامل لمخرجون کا مدلول وھو نخرج نہ خود لمخرجون کس لیے کہ ہمزہ واِنّ ولام اس کے عمل کرنے سے مانع ہیں، ہمزہ کا مکرر آنا انکار کی تاکید کے لیے ردف لکم تبعکم ولحقکم لام تاکید کے لیے زیادہ کیا گیا، بعض الذی ردف کا فاعل غائبۃ صفات غالبہ سے ہے ت مبالغہ کے لیے جیسا کہ راوی کو مبالغۃ راویہ کہتے ہیں یا اسم ہے ت ایسی ہے جیسے کہ عاقبۃ میں۔ تفسیر : اب ان کے قصور علم اور اندھے ہونے کا بیان کیا جاتا ہے اور اس مناسبت سے مبدء میں کلام کرکے معاد میں کلام واقع ہوتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ قیامت میں شک دو ہی بات پر مبنی ہے، ایک یہ کہ خدائے تعالیٰ کو اس بات پر قادر نہ سمجھا جائے دوسرے یہ کہ ممکنات اور ان کے حالات کے علم اور یادداشت میں اس کو عاری سمجھا جاوے کہ مرنے کے بعد ہر ایک جاندار کے اجزاء کو اسی کے بدن میں جمع کرنا دشوار سمجھا جاوے، انہیں بنیادوں پر وہ حشر کے برپا ہونے میں کلام کرتے تھے۔ اپنا کمال قدرت تو آیات گزشتہ میں ثابت کردیا تھا کہ ہم نے آسمان و زمین اور سب چیزیں بنائیں اور تمہارے رزق کے کیسے کیسے سامان کئے، اس کے بعد اس کی قدرت میں شک کرنا کمال حماقت تھا، اس لیے ان کے احمقانہ شبہ کو اس کے بعد نقل کرتا ہے، وقال الذین کفروا الخ یہ شبہ انہیں دونوں باتوں پر مبنی ہے کہ آیا جب ہم مرگئے اور ریزہ ریزہ ہوگئے، پھر ان کو کیونکر جمع کیا جائے گا ؟ گویا اس کی قدرت کا بھی انکار کیا اور علم کا بھی کہ ہر ایک بدن کے اجزاء اس کو کیونکر معلوم ہوں گے ؟ یہ تو اصلی شبہ تھا۔ ولقد وعدنا ھذا اس پر ان کی فضول گفتگو تھی کہ یہ ناممکن اور غلط بات ہے نہ صرف ہم سے بلکہ ہمارے باپ دادا سے بھی پہلے انبیاء اور ان کے نائب ایسی باتیں کہتے چلے آئے ہیں، یہ کہانیاں اور افسانے ہیں۔ اس کے بعد قل سیروا سے اس انکار کا دنیاوی بدنتیجہ بتلاتا ہے کہ ملک میں پھر کر دیکھو ایسے منکروں کا کیا انجام ہوا، الٹی ہوئی بستیاں ‘ اوندھے گرے ہوئے قصور عالیہ ان کے حال زار پر کیا کیا اشک حسرت بہا رہے ہیں۔ اس آنے والی مصیبت پر آنحضرت ﷺ کو قوم کا رنج و ملال ہونا ضروری تھا۔ آپ سراسر رحمت الٰہی تھے، اس پر آپ کو تسلی دی جاتی ہے۔ ولاتحزن علیہم کہ آپ ان ازلی بدنصیبوں پر کچھ رنج نہ کیجئے۔ ولا تکن فی ضیق مما یمکرون اور نہ ان کے مکروفریب سے جو آپ کے ساتھ کرتے ہیں۔ تنگدل ہوں، اس چشمہ الٰہی کو اپنی تدابیر کی ریتلی مٹی سے یہ بند نہ کرسکیں گے بلکہ اس سے تو وہ اور بھی چاروں طرف پھوٹ نکلے گا، چناچہ ایسا ہی ہوا، اس کے بعد وہ بےنصیب بجائے خوف کرنے اور ایمان لانے کے دلیرانہ یہ پوچھا کرتے تھے۔ ھذا الوعد الخ اگر سچے ہو تو بتاؤ وہ قیامت یا عذاب ہم پر کب آئے گا اس کا جواب دیتا ہے، قل عسٰی الخ کہ ان سے کہہ دو جس کی تم بہت جلدی کررہے ہو، شاید تمہارے بہت ہی قریب آلگا ہو، چناچہ قحط اور بدر کا واقعہ بہت جلد پیش آیا اور یوں موت تو سر پر ہی کھڑی ہے، جو قیامت کا دروازہ ہے، مگر خدا کا فضل و کرم ہے جو جلد ہی سزائیں نہیں دیتا۔ اس پر شکر کرنا چاہیے نہ کہ دلیر ہونا مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔ قدرت کی بابت تو پہلے کلام ہوچکا، گو وہاں سے علم کامل بھی سمجھا جاتا تھا، لیکن وہ لوگ بلید الذہن تھے، اس لیے علم کا اثبات صراحۃً کرنا پڑا، بقولہ وان ربک لیعلم ماتکن صدورھم ومایعلنون کہ خدا ہی ان کے دل کی باتوں کو جانتا ہے، یعنی جن کا وجود ذہنی ہے وہ باتیں بھی تو اس سے مخفی نہیں، چہ جائیکہ جن کا وجود خارج میں ہو اور ان کے جمیع افعال و حرکات و حالات سے واقف ہے، یعنی اعراض کہ جو غیر قار ہیں ادھر موجود ہوئے۔ ادھر مٹ گئے چہ جائیکہ وہ چیزیں جو عرصہ تک قائم رہتی ہیں۔ پھر تعمیم کرتا ہے۔ وما من غائبۃ فی السماء والارض الا فی کتاب مبین کہ ان پر کیا موقوف ہے جو چیزیں 1 ؎ آسمان و زمین میں مخفی ہیں، ابھی تک میدان ظہور میں نہیں آئی ہیں، وہ سب کتاب مبین یعنی علم الٰہی میں ہیں، جس کو کسی خاص اعتبار سے کتاب مبین اور کبھی لوح محفوظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس میں ان کے مکر اور مخفی تدابیر پر بھی تہدید ہے۔ 1 ؎ اگرچہ یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ ان چیزوں کو جانتا ہے مگر جبکہ اس کا خالق ہونا تسلیم کرلیا گیا ہے تو خالق کو مخلوق کا علم ہونا ضروری ہے۔ 12 منہ
Top